مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 384

بے مثال حسن خلق :

راوی:

عن أنس قال : خدمت النبي صلى الله عليه و سلم عشر سنين فما قال لي : أف ولا : لم صنعت ؟ ولا : ألا صنعت ؟ متفق عليه

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں ) مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ، اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا ۔ (بخاری)

تشریح :
مسلم " کی روایت میں نوسال کے الفاظ ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر باختلاف روایت آٹھ سال یا دس سال کی تھی ، ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے بعض اور رشتہ دار جو انصار میں سے تھے، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور خدمت مبارک میں دے دیا ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن سے اس وقت تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سالہ قیام کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل خدمت کرتے رہے اور اس حدیث میں وہ آنحضرت کے ساتھ اس طویل خادمانہ تعلق کا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کسی کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا ۔ الف کے پیش اور ف کی تشدید اور زیر کے ساتھ ہے ایک نسخہ میں یہ لفظ کے زبر کے ساتھ ایک نسخہ میں تنوین مکسورہ کے ساتھ ہے ، یہ لفظ انسان کی زبان سے اس وقت نکلتا ہے جب وہ کسی ناپسند یا تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہوتا ہے ۔
تم نے یہ کام کیوں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔" اس جملہ کے ذریعہ بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور کمال خلق کو بیان کیا کہ اس طویل زمانہ میں ایسا کبھی ہوا کہ میں نے از خود کوئی کام کیا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعتراض فرمایا ہو کہ تم نے میری مرضی کے بغیر یہ کام کیوں کیا ، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کسی کام کے لئے کہا ہو اور میں اس کام کو نہ کرسکا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب طلب کیا ہو کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا لیکن واضح رہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ اور سلوک دنیا وی امور یا ذاتی خدمت کے تعلق سے بیان کیا ہے نہ دینی معاملات وامور سے متعلق ، کیونکہ کسی دینی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر اعتراض پر چشم پوشی روا نہیں ہے ۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے بین السطور سے خود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوبی ظاہر ہوتی ہے یا یوں کہے کہ ایک طرح سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تعریف بھی بیان کی کہ میں نے ایسا موقع کبھی نہیں آنے دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے کسی کام پر کوئی اعتراض ہوا ہو یا مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو لیکن یہ بات کہنا کچھ زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتا ، حدیث کا جو سیاق وسباق ہے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلق نبوی کے متعلق جن احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ان کے پیش نظر حدیث کا اصل مفہوم وہی ہے جو پہلے ذکر ہوا ۔

یہ حدیث شیئر کریں