نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ،
راوی:
عنوان باب کے دو جز ہیں ، ایک کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آسماء مبارک سے ہے اور دوسرے کا تعلق صفات نبوی کے ذکر سے ہے لیکن یہاں صفات سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق واطوار اور باطنی اوصاف نہیں ہیں جن کا ذکر دوسرے باب میں ہوگا بلکہ " صفات " سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک قدوقامت اور ظاہری شکل وصورت ہے ۔ اسمائے مبارک کی تعداد : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک بہت ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن کریم میں ہے کچھ سابقہ آسمانی کتابوں میں پائے جاتے ہیں ، کچھ کا ذکر انبیاء علیہم السلام کی زبان مبارک سے ہوا ہے اور کچھ احادیث میں مذکور ہیں ۔ تاہم ان کی کل تعداد کے بارے میں کوئی ایک قول نہیں ہے ۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور القاب قرآن مجید میں بہت آئے ہیں ۔چنانچہ بعض علماء نے ننانوے نام جمع کئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء پاک کی بھی تعداد ہے قاضیی عیاض کا قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں میں سے تیس نام اپنے حبیب کے لئے مخصوص کئے ہیں ۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگر سابقہ آسمانی کتابوں اور قرآن وحدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام تلاش کئے جائیں تو ان کی تعداد تین سو تک ، اور ایک قول کے مطابق چار سوتک پہنچتی ہے ۔ اور قاضی ابوبکر ابن العربی نے ، جو مالکی مسلک کے بڑے عالموں میں سے ہیں لکھا ہے بعض صوفیاء کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہزار نام ہیں اور اس کے حبیب کے بھی ہزار نام ہیں اور یہ کہ ناموں سے مراد وہ اوصاف وصفات ہیں جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات متصف ہے اور ہروصف وصفت سے ایک نام نکلتا ہے سیوطی نے بھی مستقل طور پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک جمع کئے ہیں اور علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بائیس نام ذکر کیئے ہیں اور ان سب کی وضاحت کی ہے جہاں تک مؤلف مشکوۃ شریف کا تعلق تو انہوں نے اس باب میں صرف دو حدیثیں نقل کی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معتدد اسماء نقل کئے گئے ہیں ۔
اصل اسم مبارک : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل نام جو سب سے زیادہ مشہور ورائج ہے " محمد " ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کا رکھا ہوا نام ہے ۔ منقول ہے کہ جب عبد المطلب سے کسی نے کہا کہ تم نے اپنے پوتے کا نام اپنے آباؤ اجداد کے نام پر کیوں نہیں رکھا اور ایسے نام کو ترجیح دی جو تمہاری قوم اور تمہارے خاندان میں پہلے کسی کا نہیں رہاہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں نے اپنے پوتے کا یہ نام اس امید پر رکھا ہے کہ تمام دنیا والے اس کی توصیف میں رطب اللسان ہوں ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ! تاکہ آسمانوں پر اللہ تعالیٰ اس کی تعریف وتوصیف کرے اور زمین پر دنیا والے رطب اللسان ہوں ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بہت پہلے حضرت عبد المطلب نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ ان کی پشت سے چاندی کی ایک زنجیر نکلی جس کا سلسلہ آسمان تک چلا گیا ، ایک سلسلہ مشرق کی آخری حدوں تک اور ایک سلسلہ مغرب کی آخری حدوں تک پہنچ گیا ۔ اس کے بعد وہ زنجیر ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگئی اور اس درخت کے پتہ پتہ پر نور پھیل گیا ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ان نورانی پتوں کے نیچے مشرق سے لے کر مغرب تک کے لوگ جمع ہیں ۔عبداالمطلب نے بیدار ہونے کے بعد اس عجیب وغریب خواب کا ذکر لوگوں سے کیا ، تعبیر دینے والوں نے اس خواب کو سن کر کہا کہ مبارک ہو ، تمہاری نسل میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کی تابعداری کرنے کے والوں کا سلسلہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوگا ، اور زمین وآسمان میں اس کی تعریف ہی تعریف ہوگی ۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو حضرت عبد المطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک (محمد ) رکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی حاملہ ہونے کے بعد خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ تمہارے بطن میں اس امت کا سردار اور پیغمبر ہے ، جب تمہارے ہاں ولادت ہو توبچہ کا نام " محمد " رکھنا ۔
روایتوں میں آتا ہم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے کبھی کسی کا نام " محمد " نہیں رکھا گیا تھا ، ہاں اہل کتاب نے جب اپنی آسمانی کتابوں میں مذکور پیش گوئیوں کے مطابق لوگوں کو بتایا کہ وہ زمانہ آیا ہی چاہتا ہے جب اللہ کے آخری پیغمبر پیدا ہوں گے اور ان کا نام " محمد " ہوگا تو یہ سن کر چار لوگوں نے اس آرزو میں اپنے بیٹوں کا نام محمد رکھا کہ شرف نبوت سے مشرف ہوں ۔ تاہم یہ چار نام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پہلے نہیں کہے جاسکتے کیونکہ ان چاروں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام " محمد " سن کر ہی اپنے بیٹوں کے نام محمد رکھے تھے ۔