تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا ذکر :
راوی:
وعن كعب يحكي عن التوراة قال : نجد مكتوبا محمد رسول الله عبدي المختار لا فظ ولا غليظ ولا سخاب في الأسواق ولا يجزي بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويغفر مولده بمكة وهجرته بطيبة وملكه بالشام وأمته الحمادون يحمدون الله في السراء والضراء يحمدون الله في كل منزلة ويكبرونه على كل شرف رعاة للشمس يصلون الصلاة إذا جاء وقتها يتأزرون على أنصافهم ويتوضؤون على أطرافهم مناديهم ينادي في جو السماء صفهم في القتال وصفهم في الصلاة سواء لهم بالليل دوي كدوي النحل " . هذا لفظ " المصابيح " وروي الدارمي مع تغيير يسير
اور حضرت کعب احبار رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں اور مسلمان ہونے سے پہلے زبردست یہودی عالم تھے ) تورات کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے (تورات میں ) یہ لکھا ہوا پایا ہے : محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور اس کے برگزیدہ بندے ہونگے وہ نہ درشت خو ہونگے ، اور نہ سخت گونہ بازاروں میں شور مچاتے ہوں گے ، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے لینے والے بلکہ معاف کردینے والے اور بخش دینے والے ہوں گے ۔ ان کی پیدائش کی جگہ مکہ ہوگی ، ان کی ہجرت کی جگہ طیبہ (مدینہ ) ہوگی اور ان کی حکومت کی جگہ ملک شام ہوگی ، ان کی امت اللہ کی بہت زیادہ حمد وتعریف اور شکر کرنے والی ہوگی جو ہر حالت میں کیا غمی ، کیا خوشی اور کیا فراخی ، کیا تنگی ، اللہ کی حمد وثنا اور شکر کرے گی ، وہ لوگ جہاں بھی اتریں گے یا ٹھہریں گے ، اللہ کا شکر بجا لائیں گے ، اور جہاں بھی چڑھیں گے اللہ کی بڑائی بیان کریں گے (یعنی جب اونچی جگہ پر چڑھیں گے تو اللہ اکبر کہیں گے ) اور سورج کا لحاظ رکھا کریں گے ، جب نماز کا وقت ہوگا نماز پڑھیں گے ، اپنی کمر پر (یعنی ناف کے اوپر ازار باندھیں گے یعنی ستر پوشی کا بہت زیادہ خیال رکھیں گے ) جسم کے اعضاء پر وضو کریں گے (یعنی ہاتھ پاؤں اور منہ دھوئیں گے اور پورا وضو کریں گے ، ان کا منادی کرنے والا زمین وآسمان کے درمیان منادی کرے گا (یعنی مؤذن کسی بلند جگہ جیسے منارہ وغیرہ پر کھڑا ہو کر اذان دیا کرے گا ) جنگ میں اور نماز میں ان کی صف یکساں ہوگی یعنی دشمنان اسلام کے خلاف میدان جنگ میں بھی صف بندی کے اصول وقواعد کی پابندی کریں گے اور بجماعت نماز ادا کرنے کے لئے بھی اپنی صفیں استوار کرے گے رات میں اپنے نفس اور شیطان کی سرکوبی کے لئے عبادت کے وقت ان کی آواز پست ہوگی یعنی تسبیح وتہلیل اور ذکر وتلاوت ہلکی آواز سے کیا کریں گے جیسے شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے مصابیح نے اس روایت کو ان ہی الفاظ کے ساتھ اور دارمی نے تھوڑے سے تغیرکے ساتھ نقل کیا ہے ۔"
تشریح :
ان کی حکومت کی جگہ ملک شام ہوگی میں حکومت سے مراد دین ونبوت کے ثمرات وآثار کا ظاہر ہونا اور جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ اللہ کا پر چم بلند ہونا ہے چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی دعوت اسی ملک میں سب سے زیادہ پھیلی اور مسلمانوں کو جہاد بھی اسی علاقہ میں زیادہ کرنا پڑا ورنہ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ودنیاوی حکومت کا تعلق ہے اس کا دائرہ اثر کسی خاص ملک یا علاقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی حیثیت میں پورے عالم تک پھیلا ہوا ہے یا اس جملہ کی یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پایہ تخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اور خلفاء راشدین کے زمانہ کے بعد ملک شام کو منتقل ہوجائے گا ، چنانچہ تاریخی طور پر ایسا ہی ہوا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کا دارالخلافہ ملک شام میں رہا ۔
سورج کالحاظ رکھا کریں گے ۔ کہ ذریعہ نماز روزے اور دیگر عبادت کے ایام واوقات کی پابندی ورعایت کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان سورج کے طلوع وغروب اور زوال کے اعتبار سے اپنی نماز وعبادت کے اوقات کا دھیان رکھیں گے اور جو وقت جس عبادت کا متعین ہوگا اس میں اس عبادت کا اہتمام کریں گے ۔ ایک روایت میں ، جس کو حاکم نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے مرفوعاً نقل کیا ہے فرمایا گیا ہے : بلاشبہ اللہ کے بندوں میں بہتر لوگ وہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے (اوقات کے تعین کی خاطر ) سورج چاند ستاروں اور سایوں کا دھیان رکھتے ہیں ۔