جب آفتاب کو مغرب کی طرف سے طلوع ہونے کا حکم ملے گا
راوی:
وعن أبي ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين غربت الشمس أين تذهب ؟ . قلت الله ورسوله أعلم . قال فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فتستأذن فيؤذن لها ويوشك أن تسجد ولا يقبل منها وتستأذن فلا يؤذن لها ويقال لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها فذلك قوله تعالى ( والشمس تجري لمستقر لها )
قال مستقرها تحت العرش . متفق عليه .
اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جب کہ آفتاب غروب ہو رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمانے لگے ، جانتے ہویہ آفتاب کہاں جار ہا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آفتاب جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے ، پھر حضور رب العزت میں حاضری کی اجازت مانگتا ہے ، اس کو اجازت عطا ہوتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مشرق کی طرف لے جائے اور وہاں سے طلوع کرے اور یاد رکھو وہ وقت جلد ہی آنے والا ہے جب آفتاب (اپنے معمول کے مطابق سجدہ کرے گا لیکن اس کا سجدہ قبول نہیں ہوگا، اور اجازت چاہے گا لیکن اس کو اجازت عطا نہیں ہوگی اور یہ حکم دیا جائے گا کہ جس طرف سے آیا ہے اسی طرف لوٹ جا چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا ، اور یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے کہ والشمس تجری لمستقرلھا (یعنی آفتاب اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (آفتاب کے مستقر کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آفتاب کا مستقر یعنی اس کے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے ہے ۔ " (بخاری )
تشریح
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث میں فانہا تذہب حتی تسجد تحت العرش کے الفاظ قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف نہیں ہیں جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حتی بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمیۃ کیونکہ اس آیت کی مراد اصل حد نظر کو بیان کرنا ہے ، جب کہ یہاں حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ سورج ڈوبنے کی جو بات فرمائی گئی ہے اس کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آفتاب عرش کے نیچے پہنچ کر مستقر ہوتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ اس کے مستقر ہونے کی کیفیت وحقیقت کیا ہوتی ہے تو اس کا ادراک اظہار انسانی علم کے احاطہ سے باہر ہے ۔
لفظ تستاذن میں استیذان سے مراد " حضور حق میں حاضری کی اجازت چاہنا ۔ " لیا گیا ہے ، لیکن اس لفظ کا زیادہ واضح مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ آفتاب عرش کے نیچے سجدہ ریز ہونے کے بعد اپنے معمول کے مطابق طلوع کرنے کی اجازت چاہتا ہو اور اس کو وہ اجازت ہوتی ہے ۔
آفتاب کا مستقر عرش کے نیچے ہے " کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے جاتا ہے اور وہاں سجدہ کرتا ہے پھر وہ اجازت طلب کرتا ہے جس پر اس کو اجازت دی جاتی ہے واضح رہے کہ مذکورہ آیت (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَ قَرٍّ لَّهَا) 36۔یس : 38) کی تفسیر میں بیضاوی نے مستقر " کے کئی معنی بیان کئے ہیں ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے " مستقر " کی اس وضاحت کو قطعًا ذکر نہیں کیا ہے جو بخاری ومسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور جس سے یہ متعین ہو جاتا ہے کہ " مستقر " سے کیا مراد ہے ۔