مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان ۔ حدیث 336

تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا ذکر :

راوی:

وعن عطاء بن يسار قال : لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص قلت : أخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه و سلم في التوراة قال : أجل والله إنه لموصوف ببعض صفته في القرآن : ( يا أيها النبي إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا )
وحرزا للأميين أنت بعدي ورسولي سميتك المتوكل ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الأسواق ولا يدفع بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويغفر ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا : لا إله إلا الله ويفتح بها أعينا عميا وآذانا صما وقلوبا غلفا . رواه البخاري

اور حضرت عطاء ابن یسار (مشہور جلیل القدر تابعی ) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمروابن عاص کی ملاقات سے مشرف ہوا، تو ان سے عرض کیا کہ (یہودیوں کی آسمانی کتاب ) تورات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کی جو صفات وخصوصیات ذکر ہے ان کے بارے میں مجھے کچھ بتائے ! حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ضرور بتاؤں گا ، اللہ کی قسم تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان بعض صفات وخصوصیات کا ذکر ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں ، چنانچہ (اللہ تعالیٰ نے تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات وخصوصیات ذکر کی ہیں ، ان کو اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ) اے نبی ، ہم نے تمہیں اہل ایمان کا شاہد ، اجروانعام کی خوشخبری دینے والا ، عذاب وعتاب سے ڈارنے والا اور امیوں کو پناہ دینے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم میرے بندے ہو ( کہ عبودیت وبندگی کا وہ مرتبہ خاص تمہیں حاصل ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ) تم (بندوں کی طرف بھیجے جانے والے میرے خاص رسول ہیں ، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے ( یعنی تمہیں توکل واعتماد کی وہ دولت عطا کی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی ، اسی بناء پر تم اپنے تمام معاملات ومہمات میں اپنی طاقت وصلاحیت پراعتماد کرنے کے بجائے صرف میری ذات اور میرے حکم پر بھروسہ رکھتے ہو ) نہ تم بدخوہو ، نہ سخت گو اور سخت دل ہو اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو ۔ تورات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ) وہ (محمد ) برائی کو برائی کے ساتھ دور نہیں کریں گے ( یعنی وہ اپنے ساتھ برائی کرنے والے سے انتقام نہیں لیں گے اور سزا نہیں دیں گے ) بلکہ درگذر کریں گے ، اور (احسان پر احسان یہ کریں گے کہ ) برائی کرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کریں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ ان (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) کی روح کو اس وقت قبض نہ کرے گا جب تک ان کہ ذریعہ کج رو اور گمراہ قوم کو راہ راست پر نہ لے آئے اس طرح کہ قوم کے لوگ اعتراف واقرار کرلیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور اس وقت ان کی روح قبض نہیں کی جائے گی ) جب تک کہ اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ (لاالہ الا اللہ ) کے ذریعہ اندھی آنکھوں ، بہرے کانوں اور بے حس دلوں کودرست نہ کردے ۔ اس روایت کو بخاری نے ( عطاء ابن یسار سے ) نقل کیا ہے نیز یہی حدیث دارمی نے بھی عطاء ابن یسار ہی سے نقل کی ہے ، البتہ دارمی میں عطاء ابن یسار کی یہ روایت ( عبداللہ ابن عمر و ابن عاص کے بجائے ) عبداللہ ابن سلام سے منقول ہے ۔"
اور حضرت ابوہریرہ کی وہ روایت ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل سے متعلق ہے اور ) جس کی ابتداء نحن الاخرونکے الفاظ سے ہوتی ہے باب الجمعہ میں نقل کی جاچکی ہے ۔
تشریح : حضرت عبداللہ ابن عمر وابن عاص نہایت عالم فاضل قاری حافظ صحابی تھے ، کتابت خوب جانتے تھے ، پچھلی آسمانی کتابوں تورات وانجیل پر بھی ان کی اچھی نظر تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی احادیث لکھنے کی اجازت عطا فرمائی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے لکھ لیتے تھے ، اس لئے حضرت ابوہریرہ کی طرح یہ بھی کثیر الاحادیث ہیں اور بہت سے تابعین آپ سے حدیثیں نقل کرتے ہیں ۔ بہرحال حضرت عبداللہ ابن عمر نے چونکہ توراۃ پڑھ رکھی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ اس آسمانی کتاب میں ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کیا پیشین گوئیاں ہیں اور آپ کے کن فضائل واوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس لئے انہوں نے حضرت عطاء ابن یسار کے سوال پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بعض اوصاف وفضائل قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں اور جن کو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھا بھی ہے وہ تورات میں بھی مذکور ہیں ، پھر انہوں نے کچھ تفصیل کے ساتھ آنحضرت کے ان اوصاف وفضائل کو بیان کیا ہے جوتورات میں مذکور ہیں ، نیز انہوں نے تورات میں مذکور باتوں کو بیان کرنے کے لئے تفنن عبارت کے طور پر شروع میں وہی اسلوب اختیار کیا جو قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا ہے اور پھر وہ اسلوب بھی اختیار کیا جو تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیش گوئی کا ہے ۔
امیوں کو پناہ دینے والا " میں " امیوں " سے مراد اہل عرب ہیں اور ان کو " امی " سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ ان کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی ۔ اور یاان کو " ام القری ( یعنی اہل مکہ کی طرف منسوب کرکے " امی " کہا گیا ۔ نیز یہاں اہل عرب کی تخصیص اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسلی و وطنی تعلق انہی سے ہے اور انہی میں مبعوث فرمائے گئے ، تاکہ ان کو غیر عرب کے غلبہ تسلط سے محفوظ رکھیں اور سب سے پہلے ان ہی کو ایمان واخلاق کے ہتھیار سے مسلح کرکے ان کی حفاظت وفلاح کا سامان کریں ! اور اگر (شیطانی گمراہیوں اور نفسانی آفات سے پناہ مراد لی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا برکت وجود تمام ہی عالم کے لئے پشت پناہ ہے ۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پناہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم وملت کا اس وقت تک عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے اور تباہ وہلاک ہوجانے سے محفوظ ومامون رہنا ہے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم وملت کے درمیان موجود ہیں ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا :
وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم ۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (مسلمانوں ) پرعذاب نازل کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان میں موجود ہوں ۔"
اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو میں بازار کی تخصیص محض اس بنا پر ہے کہ عام طور پر شور وغل اور سنجیدہ حرکتوں کی جگہ بازار ہی ہے ، جہاں اچھے اچھے لوگ بھی پہنچ کر اپنی متانت وسنجیدگی کھو دیتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں