قیامت کی سب سے پہلی علامت
راوی:
وعن عبد الله بن عمرو قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول الآيات خروجا طلوع الشمس من مغربها وخروج الدابة على الناس ضحى وأيهما ما كانت قبل صاحبتها فالأخرى على أثرها قريبا رواه مسلم .
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ظاہر ہونے کے اعتبار سے قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت لوگوں پر دابۃ الارض کا نکلنا اور ان سے اس کا بات کرنا ہے ان دونوں مذکورہ نشانیوں میں سے جو نشانی پہلے ظاہر ہوگی اس کے جلد ہی بعد دوسری ظاہر ہو جائے گی ۔ (مسلم )
تشریح
طیبی نے اس حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ اگر یہاں اشکال پیدا ہو کہ آفتاب کا مغرب کی طرف سے نکلنا ' قیامت کی سب سے پہلی نشانی نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تو دھویں اور دجال کا ظہور ہو چکا ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جن چیزوں کو قیامت کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے ان کی دو قسمیں ہیں ، ایک تو وہ نشانیاں ہیں جو قیامت کے وقت قریب آجانے کی علامت ہیں، اور دوسری وہ نشانیاں ہیں جو قیام قیامت کے وجود اور اس کے آجانے پر دلالت کریں گی پس پہلی قسم کی نشانیوں سے سب سے پہلی نشانی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے اور پھر آخری کی باقی نشانیوں میں سے دھواں، دجال کا نکلنا اور اس طرح کی دوسری علامتیں ہیں دوسری قسم کی نشانیوں میں سے آفتاب کا مغرب کی طرف سے نکلنا زلزلہ اور اس آگ کا نمودار ہونا ہے جو لوگوں کو گھیر ہانک کر محشر کی طرف لے جائے گی، چنانچہ مغرب کی طرف سے آفتاب کے طلوع ہونے کو سب سے پہلی نشانی اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اسی نشانی سے دوسری قسم کی نشانیوں کی ابتداء ہوگی ۔
وخروج الدابۃ علی الناس میں لفظ خروج کا عطف طلوع الشمس پر ہے جو لفظ اول کی خبر ہے ، اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ سب سے پہلی نشانی ، ایک سے زائد ہو ، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہوگا ، لہذا ابن مالک نے کہا ہے کہ خروج میں حرف واؤ شاید کہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ' اس صورت میں عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ " قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا یا چاشت کے وقت لوگوں پر دابۃ الارض کا نکلنا اور ان سے اس کا بات کرنا ہے " یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ حدیث کہ آخری الفاظ ایہما ما کانت الخ کے مطابق ہے بلکہ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں یوں ہے کہ اوخروج الدابۃ علی الناس ۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نشانیوں کے واقع ہونے کے درمیان جو وقفہ ہوگا وہ دوسری نشانیوں کے درمیانی وقفوں کی بہ نسبت بہت کم ہوگا، چنانچہ اگر مغرب کی طرف سے آفتاب کا طلوع ہونا پہلے ہوا تو دابۃ الارض کا نکلنا اس کے فورا بعد ہوگا اور اگر پہلے دابۃ الارض نکلے گا تو مغرب کی طرف سے آفتاب کا طلوع ہونا اس کے فورا بعد ہوگا !واضح رہے کہ ان دونوں علامتوں کی ترتیب اور تقدم وتاخر کے سلسلے میں تعین کے ساتھ وحی نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس بات کو مبہم چھوڑ دیا گیا تھا البتہ اتنا بتا دیا گیا کہ یہ دونوں علامتیں اپنی نوعیت کی اور دوسری علامتوں سے پہلے ظاہر ہوں گی !نیز اس موقع پر یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ جس حدیث میں یہ منقول ہے کہ ۔۔۔ ان اولہا خروج الدجال (یعنی قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلی علامت دجال کا نکلنا ہے ) تو وہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔