مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان ۔ حدیث 311

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص :

راوی:

وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي : نصرت بالرعب مسيرة شهر وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي وأعطيت الشفاعة وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة وبعثت إلى الناس عامة " . متفق عليهوعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " فضلت على الأنبياء بست : أعطيت جوامع الكلم ونصرت بالرعب وأحلت لي الغنائم وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا وأرسلت إلى الخلق كافة وختم بي النبيون " . رواه مسلم

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی ورسول کو عطانہیں ہوئیں ، ایک تو مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے جو ایک مہینے کی مسافت کی دوری پر اثر انداز ہوتا ہے دوسرے ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور " پاک کرنے والی " قرار دیا گیا ، چنانچہ میری امت کا ہر (وہ ) شخص (جس پر نماز واجب ہو) جہاں نماز کا وقت پائے (اگر پانی نہ ہو تو تیمم کرکے ) نماز پڑھ لے ، تیسرے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ، جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں تھا چوتھے مجھ کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبہ فرمایا گیا اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی کو خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جب کہ مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ( بخاری ومسلم )

تشریح :
مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اور اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر مجھے اس خصوصیت کے ساتھ فتح ونصرت عطا فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں میرا رعب اور خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مجھ سے ایک مہینہ کی مسافت کی دوری پر بھی ہوتے ہیں تو میرے نام ہی سے ان کی ہمت پست ہوجاتی ہے اور مارے رعب ودہشت کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ،
ساری زمین کو میرے لئے مسجد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے پہلے کے رسولوں اور نبیوں کی شریعت میں ہر جگہ نماز پڑھنا اور عبادت کرنا درست نہیں تھا ان کی نمازوعبادت کے لئے جو جگہ عبادت خانہ کے طور پر متعین اور مخصوص ہوتی تھی بس وہیں نماز وعبادت ہوسکتی تھی لیکن مجھے یہ خصوصیت عطاء ہوئی کہ میں اور میری امت کے لوگ بیت الخلاء وغسل خانہ اور مقبرہ کے علاوہ پوری روئے زمین پر جس جگہ اور جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں الاّ یہ کہ کسی جگہ کی ناپاکی کا علم یقین کے ساتھ ہوجائے تو اس جگہ نماز پڑھنا جائز نہیں اسی طرح گذشتہ امتوں میں پانی کے بغیر پاکی حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن ہمارے لئے یہ جائز قرار دیا گیا ہے کہ اگر کہیں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے استعمال میں کوئی شرعی عذر حائل ہو تو پاک مٹی کے ذریعہ تیمم کرکے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا کی وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت کے بارے میں گذشتہ امتوں میں جو یہ معمول تھا کہ حاصل ہونے والا مال غنیمت اگر جانوروں کے علاوہ کسی اور جنس کا ہوتا تو اس کو جمع کرکے ایک جگہ رکھ دیا جاتا اور پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور وہاں جمع شدہ تمام مال واسباب کو جلا کر واپس چلی جاتی اور اگر مال غنیمت مویشوں اور جانوروں کی صورت میں ہوتا تو اس کے حقدار صرف وہی لوگ ہوتے تھے جو اس کو دشمنوں سے چھنتے اور اس پر قبضہ کرتے تھے نبی اور رسول کو اس میں سے کچھ نہ ملتا لیکن ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ صرف یہ کہ خمس یعنی مال غنیمت کا پانچوں حصہ بلکہ صفی بھی لینا جائز کیا گیا ہے صفی اس چیز کو کہتے ہیں جو مال غنیمت میں سب سے اچھی ہو چنانچہ مال غنیمت میں جو چیز سب سے اچھی معلوم ہوتی تھی جیسے تلوار وغیرہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے مخصوص فرمالیتے تھے مجھے کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبے سے سرفراز فرمایا گیا قیامت کے دن یہ مرتبہ خاص صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا اور شفاعت کے جتنے بھی مواقع اور مقام ہوں گے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی مرتبہ کے تحت ہوں گے اس بارے میں تفصیلی بحث باب شفاعتہ میں گذر چکی ہے مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا کہ بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف انسانوں کی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جنات کی طرف بھی ہوئی ہے اپنی رسالت کے ذریعہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین کے تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام ہدایت پہنچایا اسی طرح جنات کی بھی ہدایت فرمائی اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول الثقلین کہا جاتا ہے ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت تک جنات کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوئی ہوبعد میں ہوئی ہو اور اسی وجہ سے اس حدیث میں جنات کا ذکر نہیں کیا گیا ۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ، (١) مجھے جامع کلمات عطاء ہوئے (٢) دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈالنے کے ذریعہ مجھے فتح ونصرت عطا فرمائی گئی (٣) مال غنیمت میرے لئے حلال ہوا (٤) ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا ، (٥) ساری مخلوق کے لئے مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا (٦) اور نبوت ورسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا ۔ (مسلم )

تشریح : مجھے جامع کلمات عطاہوئے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام ، ہدایت کی باتیں ، اور مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب مجھے عطا فرمایا گیا جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کو نصیب ہوا ! اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ تھوڑے سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پہناں ہوتا ہے ، پڑھئے اور لکھئے تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو ، لیکن اس کا فہم اور وضاحت بیان کیجئے تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو " جوامع الکلم " سے تعبیر کیا جاتا ہے ، ان میں سے چند کلمات کو بطور مثال یہاں نقل کیا جاتا ہے :
١انماالاعمال بالنیات ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے ۔
٢ومن حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ ۔ بے فائدہ بات کو ترک کردینا آدمی کے اسلام کا حسن ہے ۔
٣الدین النصیحۃ ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے
٤العدۃ دین وعدہ ۔ وعدہ ، بمنزلہ دین کے ہے ۔
٥المستشارموتمن جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانتدار ہے ۔
بعض علماء نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے کام لے کر احادیث کے ذخائر میں سے اس طرح کی حدیثوں کو ، جو جوامع الکلم " میں سے ہیں چنا ہے (اور انکا مجموعہ تیار کیا ہے !بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ " مجھے جوامع الکلم یعنی جامع کلمات عطاہوئے ہیں ۔" میں جوامع الکلم سے " قرآن کریم " مراد ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا یہ اعجاز نمایاں ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے بڑے مضمون پنہاں ہیں ، لیکن پہلی وضاحت ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں " اختصہ لی الکلام " کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں اس سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں " جوامع الکلم " سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اقوال مراد ہیں " اور نبوت ورسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا ، رسالت تمام ہوئی اب میرے بعد کوئی اور نبی ورسول نہیں آئے گا کیونکہ اللہ کا دین مکمل ہوگیا ہے قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا اترنا بھی اسی دین کو مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں