باکمال عورتوں کا ذکر :
راوی:
وعن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " كمل من الرجال كثير ولم يكمل من النساء إلا مريم بنت عمران وآسية امرأة فرعون وفضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام " . متفق عليه
وذكر حديث أنس : " يا خير البرية " . وحديث أبي هريرة : " أي الناس أكرم " وحديث ابن عمر : " الكريم بن الكريم : " . في " باب المفاخرة والعصبية "
اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مردوں میں توبہت باکمال پیدا ہوئے ، ( جیسے انبیاء خلفاء علماء اور اولیاء اللہ ) لیکن عورتوں میں چند ہی کو باکمال ہونا نصیب ہوا اور وہ مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہیں نیز اور تمام عورتوں پر عائشہ کو وہ فضیلت حاصل ہے دوسرے کھانوں پر ثرید کو ۔ (بخاری ومسلم ) اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یاخیر البریہ الخ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ای الناس اکرم الخ اور حضرت ابن عمر کی روایت الکریم ابن الکریم الخ باب المفاخرۃ والعصبیۃ میں نقل ہوچکی ہے ۔
تشریح :
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں خواتین ۔ مریم بنت عمران جو حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور آسیہ زوجہ فرعون ۔ دنیا کی تمام اگلی پچھلی عورتوں پر برتری اور فضیلت رکھتی ہیں ، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ، حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور دیگر ازواج مطہرات پر بھی ؟ لیکن یہ بات چونکہ اس طرح نہیں ہے اس لئے حدیث کی یہ توجیہ وتاویل کی جاتی ہے کہ مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کو جن عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے ان سے امت محمدیہ سے پہلے کی امتوں کی عورتیں مراد ہیں کہ پچھلی تمام امتوں کی عورتوں میں سب سے زیادہ افضل اور سب سے برتر یہ دوعورتیں ہیں !یایہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث اس زمانے میں ارشاد فرمائی تھی جب کہ حضرت فاطمہ ، حضرت خدیجہ ، اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن، افضلیت واکملیت کی ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ۔" اور یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمد کی ان افضل خواتین کو مستثنیٰ ! کر کے باقی تمام عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان سب پر فضیلت وبرتری مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کو حاصل ہے ، اور اس استثناء کا قرینہ وہ دوسری احادیث ہیں جن میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، وغیرہ کے مناقب واوصاف کا ذکر ہے جیسے ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے " فاطمہ زہرا تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں ۔
حدیث کا آخری جزء جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت مذکور ہے ، کئی احتمال رکھتا ہے اس میں عورتوں سے یا تو بلا استثناء دنیا کی تمام عورتیں مراد ہیں یا حدیث میں مذکورہ دونوں خواتین ، مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون رضی اللہ عنہما کا استثناء کرکے باقی تمام عورتیں مراد ہیں اور ترجمہ میں اسی احتمال کو ترجیح دی گئی ہے ، یا جنتی عورتیں مراد ہیں ، یا اس امت کی عورتیں مراد ہیں ، اور یا ازواج مطہرات مراد ہیں ، واضح رہے کہ " ثرید" اس کھانے کو کہتے ہیں جو روٹی کوشوربے میں چور کر بنایا جاتا ہے اس زمانہ میں اہل عرب کا سب سے مرعوب کھانا ثرید ہی تھا ، کیونکہ یہ کھانا اول توبہت نرم اور لذیذ ہوتا ہے ، دوسرے نہایت زود ہضم اور مقوی سمجھا جاتا ہے علماء کے یہاں اس بارے اختلاف ہے کہ حضرت عائشہ ، حضرت خدیجہ ، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے کون سب سے افضل ہیں ؟ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دنیا کی تمام عورتوں سے افضل ہے ابن حجر نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ کو حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن پر فضیلت حاصل ہے اور سب سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ سب سے افضل حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کے بعد ان کی والدہ حضرت خدیجہ اور ان کے بعد حضرت عائشہ ۔
مولف کتاب نے مذکورہ بالا مسئلہ میں اپنا قول فیصل اس طرح لکھا ہے بعض روایتوں سے جو ابن شیبہ وغیرہ سے منقول ہیں یہ معلوم ہوتا ہے حضرت فاطمہ زہرا مریم بنت عمران آسیہ زوجہ فرعون اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بعد تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حضرت خدیجۃ الکبری کو حضرت عائشہ پر فضیلت حاصل ہے اور سبکی نے اپنے زمانے کے بعض ائمہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ حضرت حسن اور حضرت حسین جگر گوشہ رسول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے خلفاء اربعا (حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی ) سے افضل ہیں لیکن یہ افضلیت علی الاطلاق نہیں ہے کیونکہ یہ خلفاء اربعہ اپنے علم وفضل کی جلالت اور دین و ملت کی راہ میں اپنے بے مثال کار ناموں کی بنا پر سب سے زیادہ اجروثواب کے حامل ہونے کے اعتبار سے حضرت فاطمہ حضرت حسن اور حضرت حسین سے افضل ہیں جیسا کہ ابن حجر نے شمائل ترمذی کی شرح میں بیان کیا ہے پس معلوم ہوا کہ جس طرح خلفاء اربعہ اور یہ جگر گوشہ رسول اپنی اپنی مخصوص جہت وحیثیت کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں اسی طرح مذکورہ عورات مطہرات (حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن ) میں سے کسی کو بھی مجموعی کلی طور پر باقی دونوں پر یاان میں سے کسی ایک پر فضیلت وبرتری حاصل نہیں ہے بلکہ تینوں اپنی الگ الگ خصوصیات کے اعتبار سے آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتی ہیں چنانچہ حضرت عائشہ کو بلند تر علمی مقام حاصل تھا اور ان کی جو خصوصیت حاصل تھی کہ اکثر وبیشتر وحی آپ پر اس وقت نازل ہوتی تھی جب آپ کے بستر پر یا ان کے حجرہ میں ہوتے تھے تو اس اعتبار سے ان کو حضرت فاطمہ پر فضیلت وبرتری حاصل ہے اس کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کا ایک حصہ اور آپ کا جگر گوشہ ہونے کا شرف چونکہ حضرت فاطمہ کو حاصل ہے اس اعتبار سے وہ حضرت عائشہ پر فضیلت رکھتی ہیں اور مریم وآسیہ اپنے اپنے زمانہ کی تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں نیز حضرت خدیجۃ الکبری اس اعتبار سے فضیلت رکھتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ ہونے کا شرف ان ہی کو حاصل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ خدمت ومعاونت انہوں نے ہی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر اولاد ان ہی کے بطن سے ہے ۔