مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 284

حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک واقعہ :

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قال سليمان : لأطوفن الليلة على تسعين امرأة – وفي رواية : بمائة امرأة – كلهن تأتي بفارس يجاهد في سبيل الله . فقال له الملك : قل إن شاء الله . فلم يقل ونسي فطاف عليهن فلم تحمل منهن إلا امرأة واحدة جاءت بشق رجل وأيم الذي نفس محمد بيده لو قال : إن شاء الله لجاهدوا في سبيل الله فرسانا أجمعون " . متفق عليه

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (ایک دن ) حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا (یعنی یہ عزم وارادہ کیا ) کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں سے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اپنی سوبیویوں کے ساتھ مباشرت کروں گا ان میں سے ہر بیوی، ایک سوار (بہادر مرد) جنے گی جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرے گا ۔ ( چونکہ انہوں نے اس عزم وارادہ کے وقت ، جو اگرچہ نیک مقصد کے لئے تھا ، انشاء اللہ " نہ کہا اس لئے اس ) فرشتہ نے جو دائیں طرف رہتا ہے یا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اور یا کسی بھی فرشتہ نے ان سے کہا کہ " انشاء اللہ " کہہ لیجئے !لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام " انشاء اللہ " کہنا بھول گئے ، پھر انہوں نے (اپنے ارادہ کے مطابق ) ان سب بیویوں کے ساتھ مباشرت کی اور ان میں سے صرف ایک عورت کے علاوہ کوئی بھی حاملہ نہیں ہوئی ، اور اس نے بھی آدھا مرد یعنی ناقص الخلقۃ بچہ جنا ۔" (اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ، سلیمان علیہ السلام اگر " انشاء اللہ " کہہ لیتے تو یقینا ہر عورت سے بیٹا پیدا ہوتا اور سب اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے اور سوار (بہادر مرد) ثابت ہوتے ۔"

تشریح :
انشاء اللہ کہہ لیجئے ۔" اس سے کسی بھی کام کے عزم وارادہ کے وقت " انشاء اللہ " کہنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ، کہ جب بھی کوئی عزم وارادہ کیا جائے تو اس کو انشاء اللہ کہہ کر مضبوط بنا لینا چاہئے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ " میں یہ کام کروں گا ، اور اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام ہوگا اور یہ کہنا ضروری اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ کے چاہے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آتی اور بندے کی وہی خواہش بارآور ہوتی ہے جس میں مشیت الہٰی بھی شامل ہو لہٰذا اس فرشتے نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو گویا یاد دلایا کہ آپ نے جو عزم وارادہ کیا ہے اس کو اللہ کی مشیت سے وابستہ نہیں کیا " جس کی وجہ سے اس عزم وارادہ کی بار آوری غیر یقینی ہوگئی ہے ۔ آپ اب بھی انشاء اللہ کہہ لیجئے تاکہ آپ کا یہ عزم وارادہ اب سے بارآور ہونے کا مستحق ہوجائے ۔ لیکن جیسا کہ شیخ عبدالحق نے اپنی شرح میں حدیث کے مذکورہ جملہ کے تحت لکھا ہے ، حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہ بھول جانے کی وجہ سے اس وقت انشاء اللہ نہیں کہا ، جب فرشتہ نے انہیں یاد دلایا تھا بلکہ بعد میں بھی نہیں کہا ۔ ملا علی قاری نے اس موقع پر یہ لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرشتہ کے کہنے کے باوجود " انشاء اللہ " اس لئے نہیں کہا کہ وہ یہ سمجھے کہ جب دل میں " انشاء اللہ " کی نیت کرلی ہے تو زبان سے انشاء اللہ کہنا ضروری نہیں ہے ، اس اعتبار سے " نسی " کا لفظ علم کے معنی میں ہوگا ۔ نیز ایک روایت میں " نسی" کا لفظ ن کے پیش اور اس کی تشدید کے ساتھ نقل ہوا ہے اور یہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے ، اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ ان کے ذہن سے یہ بات فراموش کردی گئی کہ انشاء اللہ کہنے میں قلب اور زبان دونوں کا جمع ہونا ارباب جمع اور اہل عرفان کے نزدیک اصل درجہ رکھتا ہے ۔
حدیث کے آخری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا انشاء اللہ نہ کہنا ان کی لغزش قرار پایا اور یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے ایک ابتلاء تھا اس لئے انہوں نے بعد میں حق تعالیٰ کے حضور اپنی اس لغزش کا اعتراف واقرار اور توبہ واستغفار کیا جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے ۔ بہرحال حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی بھی کام کے ارادے وعزم کے اظہار کے وقت یہ کہنا مستحب ہے کہ میں فلاں کام کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ تاکہ اس کام میں حق تعالیٰ کی طرف سے مدد وبرکت حسن تکمیل اور آسانی وسہولت میسر ہو چنانچہ قرآن کریم میں یہی حکم دیا گیا ہے ۔
ولاتقولن لشئی انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ ۔
اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو کل کروں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا دیا کیجئے (یعنی اس طرح کی بات کہتے وقت انشاء اللہ ضرور کہا کیجئے ۔"
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام میں قوت مردی اور جنسی طاقت کمال درجہ کی تھی اور اس طاقت کا زیادہ ہونا مردوں کے لئے خوبی اور فضیلت کی بات ہے جب کہ اس طاقت کا کم ہونا کمی اور نقصان میں شمار کیا جاتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں