شب معراج میں انبیاء سے ملاقات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ شراب قبول کرنے سے انکار :
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ليلة أسري بي لقيت موسى – فنعته – : فإذا رجل مضطرب رجل الشعر كأنه من رجال شنوءة ولقيت عيسى ربعة أحمر كأنما خرج من ديماس – يعني الحمام – ورأيت إبراهيم وأنا أشبه ولده به " قال : " فأتيت بإناءين : أحدهما لبن والآخر فيه خمر . فقيل لي : خذ أيهما شئت . فأخذت اللبن فشربته فقيل لي : هديت الفطرة أما أنك لو أخذت الخمر غوت أمتك " . متفق عليه
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے شب معراج میں حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک مضطرب شخص نظر آئے ، ان کے سر کے بال گھونگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے ، اور ایسے لگتے تھے جیسے وہ قبیلہ شنوہ کے کوئی مرد ہوں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی میری ملاقات ہوئی ، ان کا قد میانہ اور رنگ سرخ تھا اور (ایسا لگتا تھا) جیسے (ابھی نہا کر ) دیماس یعنی حمام سے نکلے ہوں۔" اور میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور میں ان کی اولاد میں سے سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " پھر میرے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے ۔ جن میں سے ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب تھی، اور مجھ سے کہا گیا کہ ان میں سے جس کو پسند کرو، لے لو (چاہے شراب پسند کرلو چاہے دودھ ) میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور پی لیا ، تب مجھ سے کہا گیا (یعنی فرشتوں نے کہا ) یہ کہ تمہیں راہ فطرت دکھائی گئی (یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین اسلام کی وہ راہ سمجھا دی جو اصل میں انسانی فطرت اور جس پر ہر شخص پیدا ہوتا ہے ) جان لو اگر تم (اس وقت ) شراب پی لیتے تو تمہاری امت گمراہ ہوجاتی ۔" (بخاری ومسلم) ۔
تشریح :
" وہ ایک مضطرب شخص نظر آئے ۔ " کی وضاحت میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، بعض نے یہ کہا کہ یہاں " مضطرب " دراز قد کے معنی میں ہے یعنی حضرت موسی علیہ السلام لمبے قد کے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ مضطرب کے معنی کم گوشت " کے ہیں ، حضرت موسی علیہ السلام دبلے پتلے ، کم گوشت چھریرے بدن کے تھے ۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اس جملہ میں " مضطرب " کا " لفظ " خوف الہٰی سے دہلنے کانپنے والے " کے معنی میں ہے ، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نماز اور عبادت الہٰی کے دوران خوف اللہ سے تھر تھرکانپتے رہتے تھے ۔
رجل الشعر " میں لفظ " رجل " ج کے زیر کے ساتھ ہے اور ج کے جزم اور زبر کے ساتھ بھی منقول ہے ، اس لفظ کا اطلاق ان بالوں پر ہوتا ہے جو نہ بالکل سیدھے ہوں جن کو " سبط " کہتے ہیں اور نہ بالکل گھونگھریالے ہوں جن کو " جعد " کہا جاتا ہے ، بلکہ ہلکا سا خم لئے ہوں لیکن ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ رجل سے مراد وہ بال ہیں جن میں خمی غالب ہو یعنی گھونگھریالے کے قریب ہوں ، انہوں نے یہ معنی اس لئے مراد لئے ہیں تاکہ یہ روایت پچھلی حدیث کے منافی نہ ہو جس میں حضرت موسی علیہ السلام کے بالوں کا خم دار ہونا مذکور ہے ۔ اس حدیث میں حضرت موسی علیہ السلام کی رنگت کو سرخ بتایا گیا ہے جب کہ پیچھے کی روایت میں سرخ سفید فرمایا گیا ہے لیکن دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ جہاں تک ان کی اصل رنگت کا تعلق ہے وہ سرخ سفید ہی تھے ، اور اس اعتبار سے کہ ان پر سرخی غالب ہوگی ، ان کی رنگت پر" سرخ " کا اطلاق درست ہوا۔ من دیماس یعنی الحمام میں یعنی الحمام کے الفاظ اصل حدیث کے نہیں بلکہ ایک راوی عبدالرزاق کے ہیں جنہوں نے ان الفاظ کے ذریعہ" دیماس " کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے" حمام " مراد لیا تھا۔ بہرحال جیسے ابھی حمام سے نکلے ہوں " کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل حضرت عیسی علیہ السلام کی رنگت کے نکھار، بدن کی تروتازگی وشادابی اور روئے مبارک کی تابانی وشگفتگی کی طرف اشارہ کیا جو روحانیت کے غلبہ کا پر تو تھی ۔
" لبن" کے ساتھ " فی " استعمال نہ کرنا اور خمر کے ساتھ استعمال کرنا بظاہر تو از راہ تفنن ہے ، لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شراب تو کم تھی اور دودھ زیادہ تھا ۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان دونوں چیزوں کے پیش کئے جانے سے مقصود یہ تھا کہ فرشتوں پر آپ کی یہ فضیلت وعظمت ظاہر ہوجائے کہ آپ ہر حالت میں وہی چیز پسند کرتے اور اختیار کرتے ہیں جو بھلائی وبہتری کی ضامن ہوتی ہے اور جو چیز اپنے اندر کسی بھی طرح کی خرابی اور برائی رکھتی ہے اس کو از خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے ۔
" تمہیں راہ فطرت دکھائی گئی " دودھ کا پیالہ پسند اور اختیار کرنے کو راہ فطرت یعنی نور ہدایت سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ اس عالم سفلی میں دودھ ایک ایسی چیز ہے جو پاک وصاف ، خالص ولطیف اور سفید وشرین ہونے کے اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور بچے کو سب سے پہلی پرورش اور سب سے پہلی غذا دودھ ہی سے حاصل ہوتی ہے ، پس عالم بالا میں دودھ کی مثال ہدایت اور فطرت کو قرار دیا گیا جس سے قوت وتوانائی اور غذائے روحانی ملتی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ عالم بالا میں اس دنیا کی چیزوں کی مثالیں اور صورتیں مقرر ہیں جن سے مناسب معانی اور اشارے اخذ کئے جاتے ہیں علم تعبیر الرویاء کی مستند کتابوں میں لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں دودھ دیکھے یا خود دودھ پینا دیکھے تو اس کی تعبیر علم ، دین اور ہدایت ہے جب کہ شراب کا معاملہ اس کے برعکس ہے جو اس دنیا میں تمام برائیوں خباثتوں ، اور فتنوں اور ہرطرح کے نقصان کی جڑ ہے ۔
" اگر تم شراب پی لیتے تو تمہاری امت گمراہ ہوجاتی ۔" یہ اس لئے کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت شراب کے پیالہ کو اختیار کرلیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بھی شراب حلال ہوجاتی ، اور اس طرح اس امت کے لوگوں میں شراب نوشی کی برائی اور اس کے مضرات داخل ہوجاتے ۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک چونکہ کسی بھی برائی میں مبتلا ہونے سے ازلی وابدی طور پر محفوظ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی گمراہی میں پڑنا متصور ہی نہیں ہوسکتا ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا گیا کہ اگر آپ شراب پی لیتے تو تم گمراہ ہو جاتے، بلکہ " گمراہی کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کی طرف کی گئی ۔ حدیث کے اس جملہ سے یہ نکتہ معلوم ہوا کہ رہبر وپیشوا خواہ نبی ہویا عالم ہو یا کسی قوم و ملک کا بادشاہ وسرابراہ ہو ، کی استقامت واولوالعزمی ، اس کے پیرؤوں اور اس کے ماننے والوں کی استقامت واولوالعزمی کا ذریعہ وسبب ہے کیونکہ اس کو وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو کسی جسم میں دوسرے اعضاء کی نسبت سے دل کو حاصل ہوتی ہے۔