حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ :
راوی:
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاث كذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم )
وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا )
وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختي فأتى سارة فقال لها : إن هذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي في الإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصلي فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ – ويروى فغط – حتى ركض برجله فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسان إنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : رد الله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر " قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء . متفق عليه
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا علاوہ تین جھوٹ کے اور ان میں سے بھی وہ جھوٹ اللہ کے لئے بولے تھے۔ ان میں ایک تو ان کا یہ کہنا تھا کہ میں آج علیل سا ہوں ۔ دوسرا یہ کہنا تھا کہ " بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے" اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے جو تیسرا جھوٹ نکلا تھا وہ ان کا یہ کہنا تھا کہ " یہ میری بہن ہے " اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے) جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ (ہجرت کرکے ملک شام کی طرف جارہے تھے کہ ان کا گزر ایک بڑے ظالم وجابر حاکم کے شہر سے ہوا چنانچہ اس حاکم کو بتایا گیا کہ یہاں (اس شہر میں ) ایک شخص آیا ہوا ہے جس کے ساتھ ایک حسین وجمیل عورت ہے ، اس حاکم نے یہ سنتے ہی ایک گماشتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون عورت ہے اور تمہاری کیا لگتی ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ میری بہن ہے ۔ پھر انہوں نے سارہ کے پاس واپس آکر ان کو اس جابر حاکم کے برے ارادے سے نجات پانے کی تدبیر بتائی اور کہا کہ اگر اس ظالم کو معلوم ہوگیا کہ تم میری بیوی ہو تو تمہیں زبردستی مجھ سے چھین لے گا پس اگر وہ تمہارے اور میرے تعلق کے بارے میں پوچھے تو اس کو بتانا کہ تم میری بہن ہو، اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ تم دین کے رشتہ سے میری بہن ہولہٰذا خود کو میری بہن بتاتے وقت دینی اخوت کی نیت کرلینا ، اور یہ نیت اس لئے بھی صحیح ہوگی کہ اس سر زمین پر سوائے میرے اور تمہارے کوئی دوسرا مؤمن نہیں ہے ۔ لہٰذا اس ظالم نے ایک گماشتہ بھیج کر حضرت سارہ کو طلب کیا اور ادھر تو حضرت سارہ اس کے پاس لے جائی گئیں ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام (اپنی قیام گاہ پر) نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے سارہ جب اس ظالم کے پاس پہنچیں تو وہ اس کا حسن وجمال دیکھ کر ازخود رفتہ ہوگیا اور یا تو ان سے پوچھے اور تحقیق کئے بغیر کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا رشتہ رکھتی ہیں ، یا پوچھنے اور سارہ کے یہ کہنے کے باوجودیکہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی بہن ہیں اس نے ان پر ہاتھ ڈالنا اور ان کی عفت وعصمت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے سارہ کی مدد کی اور وہ ظالم پکڑا گیا ۔ ایک روایت میں یاتو فاخذ کی بجائے یا اس لفظ کے ساتھ مزید فخط کا لفظ بھی نقل کیا گیا ہے بہرحال وہ عتاب الٰہی کی گرفت میں آنے کے بعد زمین پر پیر مارنے لگا یعنی جس طرح کوئی آسیب زدہ یا مرگی میں مبتلا شخص زمین پر زور زور سے پاؤں پٹختا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے پیر پٹخنے لگا پھر اس نے سارہ سے کہا کہ میں اپنے ارادہ بد سے باز آیا تم اللہ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا یعنی تمہارے ساتھ کوئی تعرض نہیں کروں گا چنانچہ حضرت سارہ نے دعا کی اور اس ظالم کی خلاصی ہوگئی لیکن اس نے دوبارہ دست درازی کرنی چاہی اور پھر پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت عتاب الٰہی میں پکڑا گیا اس نے پھر حضرت سارہ سے کہا کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے اور میں اب صدق دل کے ساتھ یقین دلاتا ہوں کہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا حضرت سارہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس ظالم کی گلوخلاصی ہوگئی ۔ اس کے بعد اس ظالم اپنے دربانوں میں کسی کو بلایا اور کہا کہ تو میرے پاس انسان کو نہیں لایا ہے (کہ جس پر قابوپاسکتا) بلکہ توکسی جن کو میرے پاس لے آیا ہے کہ اس پر قابو پانے کے بجائے خود الٹا مصیبت میں پھنس جاتا ہوں یہ تو تونے میرے لئے موت کا سامان فراہم کردیا ہے پھر اس نے سارہ کی خدمت کے لئے ہاجرہ نامی ایک لونڈی دی اور ان کو واپس بھیج دیا سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس واپس پہنچیں تو وہ نماز پڑھنے میں مشغول تھے کیونکہ اس وقت تک ان کو اس ظالم کے پنجہ سے سارہ کی رہائی کی خبر نہیں ہوئی تھی ، وہ بدستور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے اور سارہ کی باعفت وعافیت واپسی کی دعائیں مانگ رہے تھے حضرت ابر اہیم علیہ السلام ان کو دیکھا تو نماز ہی میں اپنے ہی میں اپنے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کا حال ہے اور تم پر کیا بیتی ؟ حضرت سارہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کافر کی بدنیتی کو اس کے سینے میں ہی لوٹا دیا (یعنی اس نے مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لئے جس بدنیتی کا اظہار کیا وہ الٹے اس کے گلے پڑگئی ، مجھے تو وہ کوئی نقصان پہنچانہیں سکا خود عذاب الٰہی میں ضرور پھنس گیا تھأ اور اس نے خدمت کے لئے ہاجرہ کو میرے ساتھ کردیاہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد ) کہا کہ اے آسمان کے پانی کے بیٹو!وہی ہاجرہ تم سب کی ماں ہیں ( بخاری ومسلم)
تشریح :
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ بولا علاوہ تین جھوٹ کے ۔ کے بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ تمام انبیاء معصوم ہیں ان سے کوئی بھی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا خواہ وہ جھوٹ ہو یا اور کوئی معصیت ، پس حدیث کے مذکورہ جملہ کی یہ مراد ہرگز نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں جھوٹ جیسے گناہ کا تین بار ارتکاب کیا بلکہ ان کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت خود ان کی ذات کے اعتبار سے نہیں ، سننے والوں کے اعتبار سے ہے ، مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ تینوں باتیں بظاہر تو جھوٹ کی صورت میں تھیں مگر حقیقت میں جھوٹ نہیں تھا نہ تو اس اعتبار سے کہ وہ باتیں جھوٹی باتوں کے زمرہ میں آتی ہیں اور نہ اس اعتبار سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان باتوں کے ذریعہ غلط بیانی اور دروغ گوئی کا قصد وارادہ کیا تھا اس بات کو اگر اور زیادہ خوبصورت انداز میں کہنا ہو تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس مقام پر کذب سے مراد یہ ہے کہ ایسا کلام جو صحیح اور پاک مقصد کے لئے بولا گیا ہو لیکن مخاطب اس کا وہ مطلب نہ سمجھے جو متکلم کی مراد ہے بلکہ ان الفاظ کو اپنی ذہنی مراد کے مطابق سمجھے ۔ یہ انداز کلام معاریض یا تعریض(اشارے کنائے کہ پیرایہ بیان ) کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے اور فصحاء بلغاء کے ہاں اکثر رائج ہے ۔ اسی ضمن میں یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق اس طرح کی صرف تین باتوں کا ذکر ہے ، چوتھی بات کا ذکر نہیں ہے جو انہوں نے کواکب کو دیکھ کر کہی تھی کہ ہذاربی (یہ میرا رب ہے ) اور اس کے ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات ایام طفولیت میں کہی تھی ، اس وقت چونکہ وہ کسی بھی امر کے مکلف نہیں تھے اس لئے اس چوتھی بات کا کوئی اعتبار نہیں ۔
ان میں سے ایک تو ان کا یہ کہنا کہ میں آج کچھ علیل سا ہوں اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آذر اور اپنی قوم کے لوگوں کو ہرطرح سے بت پرستی کی خرابیوں کو ظاہر کرکے اس سے باز رکھنے کی سعی کرلی اور ہرقسم کے پندونصائح کے ذریعہ ان کو یہ باور کرانے میں پوری طاقت صرف کرلی کہ یہ بت نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور آذر اور قوم کے دلوں پر کسی بھی پندونصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا تو انہوں یہ تدبیر سوچی کہ اب مجھ کو رشدوہدایت کا ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہے جس سے ان لوگوں کو یہ مشاہدہ ہوجائے کہ ہم لکڑیوں اور پتھروں کی جن مورتیوں اور بتوں کو پوجتے ہیں وہ ہمارے لئے کسی بھی طرح کارگر اور فائدہ مند نہیں ہے اور ان کی ذات سے ہمیں کوئی رنج ونقصان پہنچ سکتا ہے چنانچہ ایک مرتبہ قوم کا ایک اہم مذہبی میلہ لگنے والا تھا اور سب لوگ اس میں شرکت کے لئے چلنے لگے تو کچھ لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اصرار کیا کہ وہ بھی سیر کے لئے میلہ میں چلیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اس موقع کی انتظار میں تھے، کہ سب لوگ یہاں سے چلے جائیں تو ان کے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ کو اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہناؤں ، چنانچہ انہوں نے پہلے تو ان لوگوں کے ساتھ جانے سے صاف انکار کیا مگر جب ان کا اصرار بہت بڑھا تو اس وقت انہوں نے کہا انی سقیم (میں آج کچھ علیل سا ہوں ) ان کی یہ بات بظاہر خلاف واقعہ اور جھوٹ معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ اس وقت واقعتہ علیل نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ نہ جانے کے لئے علالت کا بہانہ کیا تھا اس کی تاویل علماء یہ کرتے ہیں انی سقیم کہنے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ہر انسان کی طرح میرے ساتھ بھی بیماری آزاری لگی رہتی ہے ، اور وقتا فوقتا بیمار ہوجایا کرتا ہوں ۔ پس انہوں نے ایسی مبہم بات کہی کہ اس کے ظاہری اسلوب سے تو یہ مفہوم ہوا کہ میں اس وقت بیمار ہوں تمہارے ساتھ کیسے جاسکتا ہوں لیکن حقیقت میں ان کی مراد اس کے برعکس تھی ۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خاص انداز سے مذکورہ بات کہہ کر ان کا دھیان ستاروں کی طرف متوجہ کردیا تھا چنانچہ قوم کے لوگ اپنے عقیدہ کے لحاظ سے یہ سمجھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کسی نجس ستارے کے اثر بد میں مبتلا ہیں اور انہوں نے علم نجوم کے ذریعہ معلوم کرلیا ہے کہ وہ عنقریب بیمار ہونے والے ہیں ۔ اس تاویل کا قرینہ قرآن کریم کی اس آیت کا سیاق ہے جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس جملہ انی سقیم سے اپنی جسمانی علالت مراد لی تھی بلکہ قلب کی ناسازی مراد لی تھی کہ تمہارے کفروطغیان نے مجھے دکھی کردیا ہے اور میرے دل کی حالت سقیم ہے ، ایسے میں تمہارے ساتھ میرے جانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے دوسرا کہنایہ تھا کہ بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا تعلق بھی مذکورہ بالا پہلے واقعہ ہی سے ہے ہوا یہ کہ جب ان کی قوم کے تمام لوگ اس میلہ میں چلے گے اور بستی خالی ہوگئی تو وہ اٹھے اور سب سے بڑے بت کے ہیکل (مندر) میں پہنچے دیکھا تو وہاں بتوں کے سامنے طرح طرح کے حلوؤں پھلوں ، میوؤں ، اور مٹھائیوں کے چڑھاوے رکھے ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طنزیہ لہجے میں چپکے چپکے ان مورتیوں کو خطاب کرکے کہا کہ سب کچھ موجود ہے ان کو کھاتے کیوں نہیں ؟ اور پھر کہنے لگے کہ میں تم سے مخاطب ہوں کیا بات ہے کہ تم جواب نہیں دیتے اور اس کے بعد انہوں نے سب مورتیوں کو توڑ پھوڑ ڈالا اور سب سے بڑے بت کے کاندھے پر تبر رکھ کر واپس چلے گے قوم کے لوگ میلے سے واپس آئے تو انہوں نے مندر میں اپنے دیوتاؤں (بتوں ) کو اس خراب حالت میں پایا اور سخت برہمی کے ساتھ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کس کی حرکت ہے ؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہو نہ ہو یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کام ہے وہی شخص ہے جو ہمارے دیوتاؤں کی برائی کہتا ہے اور اس بستی میں اس کے علاوہ کوئی موجود بھی نہیں تھا چنانچہ بڑے بڑے پجاریوں ، سرداروں کے سامنے ان کی طلبی ہوئی اور مجمع عام میں ان سے پوچھا گیا کہ ابر اہیم تم نے ہمارے ان دیوتاؤں کے ساتھ یہ کیا حرکت کی ہے ؟ اس وقت حضرت ابراہیم نے یہ بات کہی کہ بل فعلہ کبیرہم بلکہ یہ کام ان سب کے بڑے بت نے کیا ہے پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جواب بھی گویا خلاف واقعہ تھا لیکن حقیقت میں ان کے اس جواب کو جھوٹ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی اصل غرض اپنی گمراہ قوم کو متنبہ کرنا اور اس طرح لاجواب کردینا تھا کہ ان کے غلط عقائد کی قلعی کھل جائے چنانچہ اپنے حریف کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنے اور اس کو راہ راست پر لانے کے لئے ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ مناظرہ اور تبادلہ خیالات کا موقع آجائے تو اس کے مسلمات میں سے کسی مسلمہ عقیدہ کو صحیح فرض کرکے اس طرح اس کا استعمال کرے کہ اس کا ثمرہ اور نتیجہ حریف کے خلاف اور اپنے موافق ظاہر ہو اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مذکورہ واقعہ میں اسے طریقہ کو تیار کیا ان کی قوم خدائے واحد کے علاوہ بے شمار دیوتاؤں اور بتوں کو پوجتی تھی ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ یہ دیوتا اور بت سب کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں اور ہماری مرادوں کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اپنے ماننے والوں اور اپنے پجاریوں سے خوش ہوتے ہیں اور اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے سخت انتقام لیتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کی اس خام خیالی اور بدعقیدگی کو عملہ ان پر ظاہر کرنے کے لئے ان کے بتوں اور مورتیوں کو توڑ پھوڑ ڈالا اور بڑے بت کو چھوڑ دیا پھر جب پوچھ گچھ کی نوبت آئی تو انہوں نے مناظرہ کا وہی بہترین طریقہ اختیار کیا جس کا ذکر اوپر کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی قوم پر یہ بات پوری طرح عیاں ہوگئی کہ جو بت اپنے کو شکست دریخت سے نہ بچا سکے اور اپنے کسی دشمن کی توڑ پھوڑ کا مقابہ نہ کرسکے وہ کسی دوسرے کو کیا نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور عبادت وپرستش کے قابل کیسے ہوسکتے ہیں بعض حضرات نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ جواب کی ایک اور تاویل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو یہ کہا بل فعلہ کبرہم تو کبیرہم سے ان کی مراد اللہ تعالیٰ کی ذات تھی گویا اس جملہ کا مطلب یہ تھا کہ ان بتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اس ذات (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہوا ہے جو سب سے بڑا ہے اور جس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ۔
اب تیسرے جھوٹ کو لیجئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ بارے میں کہا تھا کہ یہ میری بہن ہے یہ بات بظاہر خلاف حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اپنی بہن بتایا ، لیکن اگر اس بات کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اصل مراد کے سیاق میں دیکھا جائے تو ان کا یہ کہنا کہ یہ میری بہن ہے خلاف حقیقت نہیں ہوگا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ ہم مذہب (دین اسلام کے پیر و ) ہونے کی حیثیت سے دینی بھائی بہن تھے جیسے کہ خود قرآن نے فرمایا ہے انما المؤمنون اخوۃ، تمام اہل ایمان ایک دوسرے کے ساتھ اخوت کا تعلق رکھتے ہیں اور ظاہر ہے بیوی کا رشتہ قائم ہوجانے سے دینی اخوت کا رشتہ منقطع نہیں ہوجاتا علاوہ ازیں حضرت سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چچا حاران کی بیٹی تھیں اور اس اعتبار سے ان کو بہن کہنا ایسی بات ہرگز نہیں ہے جس پر حقیقی جھوٹ کا اطلاق ہوسکے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سارہ سے یہ کہنا کہ " اس سر زمین میں سوائے میرے اور تمہارے کوئی دوسرا مؤمن نہیں ہے ۔صورت حال کا صحیح بیان تھا کیونکہ اس وقت وہاں کوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان نہیں لایا تھا ، اور اس شہر میں دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا شخص مؤمن ومسلمان نہیں تھا ، لہذا اس موقع پر یہ اشکال پیدا نہیں ہوسکتا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سر زمین پر صرف دو مؤمنوں (یعنی ایک خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے حضرت سار ہ) کے موجود ہونے کی بات کیسے کہی ؟ ایک تیسرے مؤمن حضرت لوط علیہ السلام بھی تو تھے جیسا کہ قرآن کریم کی شہادت ہے :
فامن لہ لوط
پس ایمان لائے لوط علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام (کے دین ) پر۔"
ہاں، یہ اشکال اس صورت میں تو پیدا ہوسکتا تھاجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جملہ کی مراد یہ ہوئی کہ پوری دنیا میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور مؤمن نہیں ہے ، یا یہ کہ اس وقت ان دونوں کے ساتھ کے علاوہ کوئی اور مؤمن نہیں ہے، یا یہ کہ اس وقت ان دونوں کے ساتھ حضرت لوط علیہ السلام بھی اس شہر میں ہوتے ۔
حضرت شیخ عبد الحق نے مذکورہ جملہ کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس موقع پر اسلام کے رشتہ اخوت کو صرف اپنی اور سارہ کی ذات تک جو محدود رکھا تو شاید اس کی بنیاد دین اسلام کی وہ نسبت تھی جوان کو اصالتا حاصل تھی اور ان کے تعلق کا وہ خاص شرف تھا جو حضرت سارہ کو حاصل تھا ۔ حضرت شیخ نے جملہ کے تحت ایک اور اشکال اور اس کا جواب نقل کیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے : سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس جابر حاکم کے سامنے واضح طور پر یہی کیوں نہ کہا کہ " یہ عورت میری بیوی ہے۔" حضرت ابراہیم علیہ السلام جو جو مقصد حضرت سارہ کو " بہن سے تعبیر کر کے حاصل کرنا چاہتے تھے وہی مقصد وہ بیوی بتا کر بھی حاصل کرسکتے تھے کیونکہ پہلے زمانوں کے بدقماش لوگوں کا بھی ایک اصول تھا، وہ کسی شخص سے اس کی بیوی کو کم ہی چھینتے تھے ؟ دوسرے یہ کہ وہ جابر حاکم اگر اتنا ہی ظالم اور بوالہوس تھا تو اس کو اس بات سے کیا سروکار تھا کہ کوئی عورت کسی کی بہن یا بیوی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جابر حاکم کی ایک خاص عادت تھی کہ وہ کسی شخص سے اس کی بہن کو نہیں چھینتا تھا لیکن شوہر سے اس کی بیوی کو ضرور لے لیتا تھا، علاوہ ازیں وہ حاکم مذہب کے اعتبار سے آتش پرست تھا اور آتش پرستوں میں بہن اور بھائی کے رشتہ کی ایک خصوصی اہمیت تھی یہاں تک کہ بڑے سے بڑا بوالہوس آتش پرست بھی کسی کی بہن پر بری نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور اپنے اس مذہبی اصول کا احترام کرتا تھا کہ جو عورت اپنے کی تولیت اور کفالت میں ہے یا جس عورت کو کسی شخص نے اپنی بہن بتا دیا ہے وہ ہرطرح سے محفوظ ومامون ہے اور اس کا بھائی ہی اس کے بارے میں تمام تر حق اختیار رکھتا تھا ۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاہا کہ اسی کے دین کا سہارا لیں اور سارہ کو اس ظالم کے چنگل سے بچانے کے لئے ایسی بات کہی جو بالکل ہی خلاف واقعہ نہ ہو اور وہ ظالم بھی اپنے برے ارادے سے باز آجائے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس ظالم پر شیطان کی گرفت اتنی سخت تھی کہ اس نے نہ تو اپنے دین کے اصول کا احترام کیا اور نہ اپنی قماش کے لوگوں کی روایت وعادت کا لحاظ رکھابلکہ حضرت سارہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے درپے ہوا ۔
" حضرت ابراہیم علیہ السلام نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے ۔ یعنی وہ حضرت سارہ کو اس حاکم کی طرف روانہ کرکے خود نماز پڑھنے اور رب العزت میں عرض ومناجات کے لئے کھڑے ہوگئے تاکہ اپنے پروردگار سے التجاء کریں کہ اس کی قدرت کاملہ سارہ کی عزت کو محفوظ رکھے اور انہیں سخت ترین پریشانی سے نجات دے ۔چنانچہ اللہ کے مقرب بندوں کی یہی عادت ہے کہ جب انہیں کوئی سخت پریشانی لاحق ہوتی ہے اور وہ رنج ومصیبت میں گھر جاتے ہیں تو نماز پڑھنے لگتے ہیں اور ان کا یہ عمل قرآن کریم کی اس آیت کے بموجب ہوتا ہے ۔
(يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ) 2۔ البقرۃ : 153)
" اے ایمان والو! صبرو نماز کے واسطہ سے اللہ کی مدد چاہو۔"
" ذہب یتاولہا بیدہ فاخد" میں لفظ اخذ (پکڑا گیا ) تخفیف کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے ، اس لفظ کی وضاحت میں تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جب اس ظالم نے برے ارادے کے ساتھ حضرت سارہ کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہا تو قدرت الہٰی نے سارہ کی اس طرح مدد کی کہ وہ ظالم اپنے برے ارادے سے باز رکھا گیا ۔ دوسرے یہ کہ وہ ظالم اپنے ارادہ بد کی پاداش میں فورا پکڑا گیا اور اس پر عذاب اللہ وندی نازل ہوگیا ۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ جونہی اس نے حضرت سارہ پر ہاتھ ڈالنا چاہا اس پر بیہوشی طاری کردی گئی ۔ واضح رہے کہ ایک روایت میں لفظ " فعظ" بھی مجہول کا صیغہ ہے ، معنی یہ ہیں کہ اس کا گلا گھونٹا گیا اور دم سا رک گیا ۔ یا یہ کہ اس کے حلق سے اس طرح کی آواز (خرخراہٹ) نکلنے لگی ، جیسے سوئے ہوئے شخص کے خر اٹے کی ہوتی ہے ۔
" پھر اس نے سارہ کی خدمت کے لئے ہاجر نام کی ایک لونڈی دی ۔ مطلب یہ کہ جب اس حاکم نے حضرت سارہ کی بزرگی کا اس طور پر مشاہدہ کیا اور جان لیا کہ یہ کوئی معمولی عورت نہیں ہے بلکہ اپنے اللہ کے نزدیک بہت بلند مقام ومرتبہ اور کمال درجہ کا تقرب رکھتی ہے تو اس نے نہ صرف یہ کہ بڑے خوف اور دہشت کے ساتھ ان کو واپس بھیج دیا بلکہ ان کی خدمت کے لئے ایک " لونڈی " ان کے ساتھ کردی جن کا اصل نام ہاجر " یا " آجر" تھا مشہور " ہاجر" ہے ۔ حضرت سارہ کے بطن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی ، چنانچہ حضرت سارہ نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردیا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس کے بطن سے آپ کے یہاں بچہ ہوگا ۔ ان دنوں حضرت ابراہیم علیہ السلام سوبرس کی عمر کے ہوچکے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا فرمایا اور آخر میں حضرت سارہ کی گود ہری ہوئی اور ان کے بطن سے حضرت اسحٰق علیہ السلام پیدا ہوئے ۔
" اے آسمان کے پانی کے بیٹو!۔" یہ حضرت اسمٰعیل کی اولاد یعنی اہل عرب سے خطاب ہے اور حضرت ابوہریرہ کا ان ( اہل عرب ) کو " آسمان کے پانی " سے تعبیر کرنا ان کی نسلی ونسبی شرف وعظمت کے اظہار کے طور پر تھا کیونکہ " آسمان کا پانی " نظافت وپاکیزگی کے لئے ضرب المثل ہے ، چنانچہ کہا جاتا ہے : فلاں شخص آسمان کے پانی سے زیادہ پاک وصاف ہے ۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اہل عرب کو بنی ماء السماء (آسمان کے پانی کے بیٹے ، اس کہا تھا کہ وہ بارش کے انتظار میں رہتے تھے ، جہاں بارش ہوتی وہاں جاکررہ جاتے تھے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ بنی ماء السماء سے انصار مراد ہیں کیونکہ وہ عامر بن حارثہ ازدی کی اولاد ہیں جو نعمان بن منذر کا دادا تھا اور اس کا لقب " ماء السمائ" سے مراد یہ زمزم ہے اور حضرت ابوہریرہ نے بنی ماء السماء کی ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ زمزم کا چشمہ حضرت اسمٰعیل کی وجہ سے نمودار ہوا تھا اس کا پانی ، آسمان قدس وطہارت سے اس زمین پر آیا تھا اور یہ کہ زمین سے جو فوائد وفیوض برآمد ہوتے ہیں وہ سب صانع حقیقی اللہ تعالیٰ آسمان سے ہی بھیجتا ہے ۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ اگرچہ تمام اہل عرب حضرت ہاجرہ ہی کے بطن سے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان میں سے اکثر وبیشتر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی کی اولاد میں سے ہیں اس لئے " اکثر واغلب " کا اعتبار کرتے ہوئے تمام ہی اہل عرب کو بنی ماء السماء " سے خطاب کیا گیا ۔