پیکر آدم کے بارے میں شیطان کا اظہار خیال :
راوی:
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لما صور الله آدم في الجنة تركه ما شاء أن يتركه فجعل إبليس يطيف به ينظر ما هو فلما رآه أجوف عرف أنه خلق خلقا لا يتمالك " . رواه مسلم
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم علیہ السلام کا پیکر بنایا اور شکل وصورت دی تو اس پیکر کو جب تک چاہا جنت میں رکھے رکھا ، اس عرصہ میں ابلیس اس پیکر کے گرد چکر کاٹتارہا اور غور کرتا رہا کہ یہ کیا ہم اور کیسا ہے (یعنی وہ یہ مشاہدہ کرنا چاہتا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے اس پیکر خاکی کی صورت میں اپنے بندوں کی جو نئی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اس کی حیثیت وحقیقت کیا ہوگی ) اور جب اس نے دیکھا کہ یہ پیکر خاکی اندر سے کھوکھلاہے تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق پیدا کی گئی ہے جو غیر مضبوط ہوگی ۔ (مسلم)
تشریح :
اس حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے پیکر اور شکل وصورت کی تخلیق جنت میں ہوئی تھی جب کہ اور روایت اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کی تخلیق اور ان کو پیکر وصورت کا عطا کیا جانا میدان عرفات کے ایک حصہ وادی نعمان میں عمل میں آیا تھا ، وہاں ان کے پیکر کو آخری شکل دے کر اور اس میں روح پھونک کر ان کو جنت میں لے جایا گیا پس حدیث میں فی الجنۃ کے الفاظ ، جن سے ان کی تخلیق کا جنت میں ہونا مفہوم ہوتا ہے ، دراصل ان کی ابتدائی تخلیق کا اظہار کرنے کے لئے نہیں بلکہ تخلیق کے بعد کی صورت حال کو ذکر کرنے کے ہیں، اس اعتبار سے حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو تخلیق کرکے اور ان کے پیکر میں روح پھونک کر ان کو جنت میں رکھا تو ابلیس نے ان کے پیکر کی ساخت وحقیقت کی ٹوہ لگائی اور جب اس نے دیکھا کہ یہ پیکر خاکی کھوکھلا ہے اور اندر سے اس کا پیٹ خالی ہے تو اس کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ انسان نامی مخلوق اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے کیونکہ جو چیز اندر سے ٹھوس نہ ہو اور اس کے تمام اعضاء واجزاء ایک دوسرے سے اس طرح مربوط نہ ہوں کہ ان کے درمیان کوئی خلانہ رہے تو اس کو پوری طرح ثبات وقرار حاصل نہیں ہوتا ، لہٰذا اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب اس پیکر خاکی کی جسمانی ساخت اس طرح کی ہے تو لامحالہ اس کی افتاد طبع اس کا مزاج اور اس کے اندورنی احوال کو بھی ثبات وقرار نہیں ہوگا اور اس افتادطبع کی وجہ سے خود کو اپنے معاملات میں ڈانواڈول ہونے اور اپنے احوال میں غیر مستحکم ہونے سے نہ بچاپائے گا ، اور اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکے گا کہ مثلا غصہ کے وقت بے اختیار ہوجایا کرے گا اور طبعی خواہشات پر قدغن نہیں لگا سکے گا کہ بھوک پیاس مٹانے ، جنسی تسکین حاصل کرنے اور اپنی آرزؤں کو پورا کرنے کے لئے جائز وناجائز کے درمیان تمیز نہیں کرے گا ۔ پس ابلیس گویا خوش ہوا کہ اس نے امید قائم کرلی کہ جو مخلوق اپنی جسمانی ساخت اور طبعی افتاد کی وجہ سے آفات کا مورد بن سکتی ہے اس کو گمراہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہوگا۔