مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 264

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے آفرینش سے روز قیامت تک کے احوال بیان فرمادیئے تھے :

راوی:

وعن عمر قال : قام فينا رسول الله صلى الله عليه و سلم مقاما فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم وأهل النار منازلهم حفظ ذلك من حفظه ونسيه من نسيه " . رواه البخاري

اور حضرت امیر المؤمنین حضرت عمر ف اور ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے ہمارے سامنے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ کے دوران ابتدائے آفرینش سے قیامت کے دن جنت ودوزخ میں داخل ہونے تک کے تمام احوال وکوائف کا ذکر فرمایا جس شخص نے ان باتوں کو یاد رکھا اس کو یاد ہیں اور جس شخص نے بھلادیا وہ بھول گیا ہے (بخاری)

تشریح :
مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن بڑی تفصیل کے ساتھ مبداء ومعاد کے احوال کو اول سے آخر تک بیان فرمایا یعنی پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیق کائنات کی ابتداء کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قائم کرنے کا ارادہ کیا تو شروع میں کیا کیا چیزیں بنائیں پھر کس طرح نظام عالم کو قائم فرمایا اور اس عالم کو انسان نامی مخلوق سے آباد کرنے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی اور ان کے ذریعہ نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا ، کائنات انسانی کی تہذیبی، اخلاقی اور دینی زندگی کانظم قائم کرنے اور رب کائنات کی حاکمیت وہدایت کے ظہور کے لئے کون نبی اور رسول اس دنیا میں آئے کیسی کیسی ملتیں اور قومیں وجود میں آئیں ، ان ملتوں اور قوموں نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا، جن لوگوں نے اللہ کے بیجھے ہوئے رسولوں کی اطاعت کی ان کو کیا اجروانعام ملے اور جن لوگوں نے ان رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا ان کو کس طرح تباہ وبرباد کردیا گیا اور آخرت میں ان سب ملتوں اور امتوں کا کیا حال ہوگا اور پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں بتایا کہ اللہ کے آخری دین " اسلام " کو ماننے والوں یعنی مسلمانوں کی ملی زندگی میں کیسے کیسے انقلاب آئیں گے ، انہیں کن کن احوال سے دوچار ہونا پڑے گا کون کون سی اچھائیاں ان کا طرہ امتیاز بنیں گی اور کون کون سی برائیاں ان کی دینی ودنیاوی زندگی کو خراب کریں گی پھر آخرت میں اس امت محمدیہ کے ساتھ کیا سلوک ہوگا ، کس طرح کے لوگ جنت میں اور کس طرح کے لوگ دوزخ کے سپرد کئے جائیں گے ۔
جس شخص نے ان باتوں کو یاد رکھا ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ سے حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ باتیں جس کا تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی تھیں ، ان کو ان لوگوں نے یاد رکھا جہنوں نے یاد رکھنے کی کوشش کی اور جن کو اللہ تعالیٰ نے یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ لوگ ان باتوں کو بھول گئے جہنوں نے یاد رکھا جہنوں نے یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ حاصل یہ کہ بعض لوگوں کو وہ پوری باتیں یاد ہیں اور بعض لوگ ان کو بھول گئے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں