جنت کو مکروہات نفس سے اور دوزخ کو خواہشات نفس سے گھیر دیا گیا ہے :
راوی:
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لما خلق الله الجنة قال لجبريل : اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها وإلى ما أعد الله لأهلها فيها ثم جاء فقال : أي رب وعزتك لا يسمع بها أحد إلا دخلها ثم حفها بالمكاره ثم قال : يا جبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها ثم جاء فقال : أي رب وعزتك لقد خشيت أن لا يدخلها أحد " . قال : " فلما خلق الله النار قال : يا جبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها فقال : أي رب وعزتك لا يسمع بها أحد فيدخلها فحفها بالشهوات ثم قال : يا جبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها فقال : أي رب وعزتك لقد خشيت أن لا يبقى أحد إلا دخلها " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو بنایا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ جاؤ ذرا جنت کی طرف نگاہ اٹھا کر تو دیکھو، (میں نے کتنی اچھی اور کس قدر نازک اور دیدہ زیب چیز بنائی ہے چنانچہ وہ گئے اور جنت کو اور اس کی ان تمام چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لئے بنائی ہیں دیکھا ، پھر واپس آکر عرض کیا کہ پرودگار تیری عزت کی قسم (تونے اتنی اعلی اور نفیس جنت بنائی ہے اور اس کو ایسی ایسی نعمتوں اور خوبیوں سے معمور کیا ہے کہ ) جو کوئی بھی اس کے بارے میں سنے گا وہ اس میں داخلہ کی یقینا خواہش کرے گا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے جنت کے چاروں طرف ان چیزوں کا احاطہ قائم کردیا ، جو نفس کو ناگوار ہیں اور فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام جا کر جنت کو دوبارہ دیکھ آؤ چنانچہ وہ گئے اور جنت کو اس اضافہ کے ساتھ جو چاروں طرف احاطہ کی صورت میں ہوا تھا ) دیکھ کر واپس آئے اور عرض کیا کہ پروردگار ! تیری عزت کی قسم مجھے یہ خدشہ ہے کہ اب شاید ہی کوئی جنت میں داخل ہونے کی خواہش کرے (کیونکہ اس کے گرد مکروہات نفس کا جو احاطہ قائم کردیا گیا ہے اس کو عبور کرنے کے لئے نفسانی خواہشات کو مارنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ انسان خواہشات نفس کو مار کر جنت تک پہنچنا دشوار سمجھے گا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے دوزخ بنائی تو حکم دیا کہ جبرائیل علیہ السلام ! جاؤ دوزخ کو دیکھ کر آؤ کہ میں نے کتنی ہولناک اور بری چیز بنائی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس جبرائیل گئے اور دوزخ کو دیکھ کر واپس آئے تو عرض کیا کہ پروردگار ! تیری عزت وجلال کی قسم جو کوئی بھی دوزخ کے بارے میں سنے گا وہ ڈر کے مارے اس سے دور رہے گا اور اس میں جانے کی خواہش نہ کرے گا، تب اللہ تعالیٰ نے دوزخ کے چاروں طرف خواہشات اور لذات دنیا کا احاطہ قائم کردیا اور جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ جبرائیل ! جاؤ دوزخ کو دوبارہ دیکھ کر آؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ حضرت جبرائیل گئے اور دوزخ کو اس احاطہ کے اضافہ کے ساتھ دیکھ کر واپس آئے اور عرض کیا کہ پروردگار ! تیری عزت وجلال کی قسم ، مجھے خدشہ ہے کہ اب شاید ہی کوئی باقی بچے جو دوزخ میں نہ جائے کیونکہ جن خواہشات نفس اور لذات دنیا کا احاطہ دوزخ کے چاروں طرف کردیا گیا ہے وہ اس قدر دلفریب اور اتنی زیادہ مزیدار ہیں کہ نفس طبیعت کی پیروی کرنے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو ان خواہشات ولذات کی طرف نہ لپکے اور اس کے نتیجہ میں دوزخ میں نہ جانا پڑے ۔"
تشریح :
مکارہ اصل میں مکرہ کی جمع ہے جس کی معنی ہیں مکروہ یعنی ناپسندیدہ ودشوار چیز یہاں مکارہ سے مراد وہ شرعی امور ہیں جن کا انسان کو مکلف قرار دیا گیا ہے کہ فلاں فلاں کو اختیار کیا جائے اور فلاں فلاں سے اجتناب کیا جائے پس جنت کے چاروں طرف مکارہ کا احاطہ قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور گناہوں سے اجتناب کرنے کی تکلیف ومشقت اٹھائی جائے گی نفس کی خواہشات اور اس کی تمناؤں کو ختم نہ کردیا جائے گا اس وقت تک جنت میں داخل ہونا ناممکن ہوگا ۔