مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ دیدار الٰہی کا بیان ۔ حدیث 227

کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ؟

راوی:

وعن الشعبي قال : لقي ابن عباس كعبا بعرفة فسأله عن شيء فكبر حتى جاوبته الجبال . فقال ابن عباس : إنا بنو هاشم . فقال كعب : إن الله قسم رؤيته وكلامه بين محمد وموسى فكلم موسى مرتين ورآه محمد مرتين . قال مسروق : فدخلت على عائشة فقلت : هل رأى محمد ربه ؟ فقالت : لقد تكلمت بشيء قف له شعري قلت : رويدا ثم قرأت ( لقد رأى من آيات ربه الكبرى )
فقالت : أين تذهب بك ؟ إنما هو جبريل . من أخبرك أن محمدا رأى ربه أو كتم شيئا مما أمر به أو يعلم الخمس التي قال الله تعالى : ( إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث )
فقد أعظم الفرية ولكنه رأى جبريل لم يره في صورته إلا مرتين : مرة عند سدرة المنتهى ومرة في أجياد له ستمائة جناح قد سد الأفق " رواه الترمذي
وروى الشيخان مع زيادة واختلاف وفي روايتهما : قال : قلت لعائشة : فأين قوله ( ثم دنا فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى )
؟ قالت : ذاك جبريل عليه السلام كان يأتيه في صورة الرجل وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد الأفق

حضرت شعبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن میدان عرفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت کعب احبار سے ملاقات کی اور ان سے ایک سوال دریافت کیا کہ کیا دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے ؟) حضرت کعب (نے اس سوال کو اتنا عجیب وغریب سمجھا کہ فرط حیرت سے انہوں ) نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور ان کے اس زور دار نعرے کی باز گشت سے پہاڑ گونج اٹھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ ہم ہاشم کی اولاد ہیں !حضرت کعب نے فرمایا کہ : اچھا تمہارے سوال مقصد اب میری سمجھ میں آیا تو سنو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم کیا (یعنی ایک کو اپنے کلام سے مشرف فرمایا اور ایک کو اپنے دیدار کی سعادت عطاء فرمائی ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا ۔ ایک مرتبہ تو وادی ایمن میں اور دوسری مرتبہ کوہ طور پر) اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ۔" حضرت مسروق (جو حدیث کے راوی ہیں اور جن سے حضرت شعبہ روایت نقل کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ (میدان عرفات میں حضرت کعب اور حضرت عباس کے درمیان ہونے والی اس بات چیت کو سن کر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ (مسروق ) تم نے ایسی بات پوچھی ہے جس سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں (یعنی میرا عتقاد یہ ہم کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک منزہ ہے کہ وہ کسی کو نظر آئے اس لئے میرے نزدیک دنیا میں اس کے دیدار کا واقع ہونا محال ہے اب تم نے یہ سوال پوچھا تو اس کی اس پاک ذات کی عظمت وخوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں نے عرض کیا کہ ، ذرا توقف سے کام لیجئے (یعنی میرے اس سوال سے اتنا پریشان نہ ہوئے اور نہ اتنی جلد دیدار الہٰی کا انکار کیجئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا میری بات پوری طرح سن لیں ، پھر میں نے دیدار الہٰی کے ثبوت میں یہ آیت پڑھی (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) 53۔ النجم : 18) ( گویا حضرت مسروق نے اس آیت کے ذریعہ یہ ظاہر کیا کہ میرے نزدیک آیت میں بڑی نشانی سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچشم سریا بچشم قلب وہ دیدار الہٰی حاصل ہوناہے جو پروردگار کی عظمت شان یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم پر دلالت کرتا ہے ) حضرت عائشہ نے یہ سن کر فرمایا کہ (مسروق ) یہ آیتیں تمہیں کہاں لے جارہی ہیں؟ (یعنی تم درست نہیں سمجھ رہے ہو ، ان آیتوں کا مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدار الہٰی حاصل ہونا نہیں ہے بلکہ ) بڑی نشانی سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں (جن کو آنحضرت نے ان کی اصل صورت میں دیکھا ) جو شخص تم سے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ، یا یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں میں سے کچھ چھپا لیا ہے جن کے اظہار کا ان کو حکم دیا گیا تھا ، اور یا یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ غیبی باتوں کا علم رکھتے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ) 31۔ لقمان : 34) میں ارشاد فرمایا ہے تو بلاشبہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان باندھا (جہان تک اس آیت کا تعلق ہے جو تم نے پڑھی ہے تو ) اس کی مراد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ تو سدرۃ المنتہی کے نزدیک (جیسا کہ اس آیت (وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13 عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى 14 ) 53۔ النجم : 14-13) میں فرمایا گیا ہے ) اور ایک مرتبہ (مکہ کے نواح ) اجیاد میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں اس طرح دیکھا کہ ) ان کے چھ سوبازو تھے اور انہوں نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا اس روایت کو ترمذی نے (انہی الفاظ میں ) اور بخاری ومسلم نے کچھ مزید اور مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے نیز بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ مسروق نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ : اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا محمول ومصداق کیا ہے ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی حضرت عائشہ نے جواب دیا ان سب کی ضمیروں کامرجع حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جو عام طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی انسان کی شکل وصورت میں (وہ بھی اکثر وبیشتر ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں) آتے تھے اور اس مرتبہ (مکہ کے انواح اجیاد میں ) اپنی اس صورت میں آئے تو جو ان کی اصل صورت ہے اور انہوں نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا۔"

تشریح :
ہم ہاشم کی اولاد ہیں ۔" یعنی ہم نہ صرف اس قبیلہ وخاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ویسے بھی علم وفضیلت ، عقل وفراست ، اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس خاندان کے بارگاہ نبوت سے نسبت وقرابت رکھنے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علوم وانوار سے اکتساب کرنے کے مواقع ہمیں زیادہ بہتر طریقہ پر میسر ہوا ہے اور اس سب سے بڑی خاندانی نسبت وامتیاز کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم ومعرفت سے سرفراز فرمایا ہے لہذا مجھ سے یہ توقع نہ رکھئیے کہ میں کوئی ایسا سوال کرونگا جو علم وعقل سے بعید ہو، میں نے جو کچھ پوچھا ہے اس گہرائی میں پہنچنے کی کوشش کیجئے اور میرے سوال پر حیرت و غصہ کرنے کے بجائے غور وفکر کرکے جواب دیجئے کہ کیا دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار فی الجملہ ممکن ہے دراصل جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مذکورہ سوال کیا تو حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سمجھے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا میں مطلق دیدار الہٰی کے بارے میں ذرا زور دار الفاظ کا اظہار کیا تو حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے سوال میں غور وفکر کرناپڑا اور تب وہ ان کی مراد سمجھے کہ ان کے سوال میں مطلق دیدار الہٰی مراد نہیں ہے بلکہ فی الجملہ دیدار الہٰی مراد ہے اس کے بعد انہوں نے جواب دیا کہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دیدار الہٰی ممکن ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں حاصل ہوا۔
یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں میں سے کچھ چھپا لیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ میں ان چیزوں سے مراد احکام وشرائع ہیں جن کا لوگوں تک پہنچانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضروری قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
( یایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ )
اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کچھ احکام وشرائع اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں تک پہنچا دیجئے اور اگر ایسا نہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کا پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔"
اور " چھپانے " کا مفہوم عام ہے کہ خواہ تمام احکام وشرائع کو چھپانے کے بارے میں کہا جائے یا ان احکام وشرائع میں سے کچھ کو اس سے شیعہ لوگوں کی اس گمراہ کن بات کی تردید ہوجاتی ہے کہ کچھ احکام وشرائع ایسے ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیعت کے لئے مخصوص رکھا ہے، ان کا دائرہ پوری امت تک وسیع نہیں کیا۔ تو پھر اللہ کے اس ارشاد کا محمول ومصداق کیا ہے کے ذریعہ حضرت مسروق نے سورت نجم کی ان تمام آیات کی طرف اشارہ کیا جن کے بارے میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مفسرین کے اختلافی اقوال کا ذکر پیچھے بھی کیا جا چکا ہے وہ آیتیں یہ ہیں۔
(ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى Ď فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى Ḍ فَاَوْحٰ ى اِلٰى عَبْدِه مَا اَوْحٰى 10 مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 ) 53۔ النجم : 8 تا 11)
وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا تو دونوں کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم پھر خدانے اپنے بندے پر وحی نازل فرمائی جو کچھ کہ نازل فرمائی تھی جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔
پس بظاہر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ دنی کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اسی طرح تدلی اور فکان قاب قوسین میں کان کی ضمیریں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہیں جس کا ایک ظاہری قرینہ فاوحی کی ضمیر ہے کہ اس کا مرجع یقینی طور پر اللہ تعالیٰ ہے اس بنیاد پر حضرت مسروق نے اشکال ظاہر کیا کہ اگر شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدار الہٰی حاصل نہیں ہوا تھا تو ان آیتوں کے کیا معنی ہوں گے ؟ اس اشکال کا جواب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ دیا کہ ان افعال کی ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے ہی نہیں بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ ان آیتوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ثابت ہوتا ہے غیر درست نتیجہ اخذ کرنا ہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کان یاتیہ فی صورۃ الرجل الخ کے ذریعہ ایک اور اشکال کا جواب دیا کہ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر دیکھا ہی کرتے تھے پھر شب معراج میں ان کو دیکھنے کو اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو حضرت عائشہ نے گویا کہ اس اشکال کے دفیعہ کے لئے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام عام طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انسانی شکل وصورت آیا کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اصل صورت کے ساتھ صرف دو مرتبہ آئے ہیں ایک دفعہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح دیکھا تھا کہ ان کے چھ سوبازو تھے اور پورا افق ان سے مامور تھا اور پھر اسی اصل صورت وہیبت کے ساتھ دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آئے تھے ۔ حاصل یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے اس کو اختیار کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا ہے بایں احتمال کہ دونوں مرتبہ بصر (سر کی آنکھوں) سے دیکھا ہو یا بصیرت (دل کی آنکھوں ) سے یا یہ کہ ایک مرتبہ تو بچشم سر دیکھا ہو اور ایک مرتبہ بچشم قلب اگرچہ اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دو مرتبہ نہیں دیکھا ہے ۔ ایک اور حضرت عائشہ اس سے انکار کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو ان کے اس انکار کو مطلق انکار پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے اور مقید انکار پر بھی مطلق انکار کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ سرے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار الہٰی کے منکر ہیں خواہ بچشم قلب دیکھنا مراد لیا جائے یا بچشم سر اور مقید انکار کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچشم سر دیکھنے کی منکر ہیں ، بچشم قلب دیکھنے کی نہیں لیکن حضرت عائشہ کے اس ارشاد کو دیکھتے ہوئے زیادہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انکار کو مطلق انکار پر محمول کیا جائے ۔ اور حافظ ابن حجر یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے اثبات اور حضرت عائشہ کے انکار کے درمیان جو تضاد ہے اس کو دور کرنے کے لئے یہ تاویل کی جانی چاہے کہ حضرت عائشہ کا انکار بچشم سر دیکھنے پر اور حضرت ابن عباس کا اثبات بچشم قلب دیکھنے پر محمول ہے ، لیکن بچشم قلب دیکھنے کا مطلب مجرد علم نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم وعرفان تو حضور کو ہروقت ہی حاصل رہتا تھا ، اس کو شب معراج کے ساتھ مخصوص کرکے بیان کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے ، لہٰذا بچشم قلب دیکھنے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ اس خاص موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں وہ بنیائی پیدا فرمادی تھی جو آنکھوں میں ہوتی ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قلب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا وہ دیدار حاصل کیا جو کوئی شخص آنکھوں کے ذریعہ دوسری چیزوں کا حاصل کرتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں