آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدار الہٰی سے متعلق ایک آیت کی تفسیر
راوی:
وعن ابن عباس : ( ما كذب الفؤاد ما رأى . . . . ولقد رآه نزلة أخرى )
قال : رآه بفؤاده مرتين . رواه مسلم
وفي رواية للترمذي قال : رأى محمد ربه . قال عكرمة قلت : أليس الله يقول :
( لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار )
؟ قال : ويحك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره وقد رأى ربه مرتين
" اور حضرت ابن عباس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 اَفَتُمٰرُوْنَه عَلٰي مَا يَرٰى 12 وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13 ) 53۔ النجم : 13-12-11) (ترجمہ : اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط نہیں کہا اس چیز کی بابت جو انہوں نے آنکھوں سے دیکھی یعنی ذات اقدس تعالیٰ کو اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پروردگار کو ایک مرتبہ اور دیکھا کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پروردگار کو دل کی آنکھوں سے ہر مرتبہ دیکھا۔ (مسلم) اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے (مذکورہ آیت کی تفسیر میں ) کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ۔" حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ (میں نے یہ سن کر اپنا اشکال ظاہر کیا اور ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ (قرآن کریم میں اپنی ذات کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار (پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس اشکال کے جواب میں ) کہا کہ تم پر افسوس ہے (کہ تم بات نہیں سمجھ سکے ، حقیقت یہ کہ ) یہ (مفہوم جو تم نے اس آیت کے ذریعہ پیش کیا ہے) اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے اور اپنے اس نور کے ساتھ ظاہر ہو جو اس کی ذات خاص کا نور ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا۔"
تشریح :
اس روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جن آیتوں کی تفسیر ووضاحت منقول ہے کہ سورت نجم کی ابتدائی آیتوں میں سے ہیں اور مفسریں کے ہاں ان آیتوں کے بارے میں خاص اختلاف ہے کہ ان کا مدلول ومحمول کیا ہے ۔صحابہ وتابعین اور آئمہ مفسرین میں سے ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سورت نجم کی ان آیتوں میں درحقیقت اس بات کا ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ایک مرتبہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں اور دوسری شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس ۔ اس کے برخلاف صحابہ وتابعین اور آئمہ مفسرین کی دوسری جماعت کا، جن میں حضرت ابن عباس کا نام نامی سرفہرست ہے ، یہ کہنا ہم کہ ان آیات میں واقعہ معراج کا بیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پروردگار کو دل سے دو مرتبہ دیکھا ۔" یعنی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں میں بینائی کی بھی وہ طاقت ودیعت فرمائی جو آنکھ میں ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ادراک کی بھی وہ طاقت عطا فرمائی جو قلب میں ہوتی ہے، پس یہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو بچشم قلب دیکھا یا یہ کہ بچشم سر دیکھا ، دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یہ مطلب اس لئے اختیار کیا گیا ، تاکہ جو حضرات جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ ) یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں پروردگار کو بچشم سر دیکھا ہے ، اور حضرات یہ کہتے ہیں کہ بچشم قلب دیکھا ہے ، ان دونوں کے اقوال کی رعایت ہوجائے جیسا کہ اوپر اجمالا ذکر کیا گیا پہلے اختلاف تو یہی ہے کہ سورت نجم کی ابتدائی آیتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کس کو دیکھنے کا ذکر ہے حق تعالیٰ کو یا حضرت جبرائیل علیہ السلام کو؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حق تعالیٰ کو دیکھنا مراد لیتے ہیں جمہور صحابہ ان کی تائید میں ہیں اور سلف میں جمہور مفسرین بھی اسی طرف گئے ہیں ان کے نزدیک دنی فتدلی قاب قوسین اوادنی کے الفاظ ( جوان آیات میں آئے ہیں ) معراج کے موقعہ پر بارگاہ ربوبیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب اور پروردگار کے مشاہدہ وزیارت کا بیان ہیں ۔ پھر اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھا ہے یا بچشم قلب؟ بعضوں نے تو یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر ہی کی آنکھوں سے اپنے پروردگار کو دیکھا، امام نووی کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کے نزدیک ترجیحی قول یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ۔ جو حضرات آیات مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا مراد لیتے ہیں ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان آیات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اس قرب ومشاہدہ کا بیان وذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل امین کی اصل صورت کے ساتھ شب معراج میں اور اس سے پہلے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں حاصل ہوا تھا ۔
یہ اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے الخ " کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی مشیت وقدرت پر منحصر ہے اگر اس کی ذات خاص کی تجلی ظاہر ہو تو اس میں شبہ نہیں کہ کسی کی بھی نگاہ وبصر کی توانائی برداشت کرسکتی ہو تو یقینا نگاہ اس کی طرف اٹھ سکتی ہے اور آنکھیں دیدار اور زیارت کی تاب لاسکتی ہیں رہی اس آیت کی بات جس کا حوالہ حضرت عکرمہ نے دیا تو اس کے متعلق علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں " ادراک " کا ذکر ہے جس کے لغوی معنی کسی چیز کا اس کے تمام اطراف وجوانب اور تمام سرحدوں کے ساتھ احاطہ کرنا ہیں اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے لئے نہ کوئی حد و نہایت ہے اور نہ اس کے اطراف وجانب ہیں ، اس کی ذات ان چیزوں سے ماوراء اور لامحدود ہے ، اس معنی میں کوئی بھی نگاہ وبصر اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ لہٰذا اس آیت میں " احاطہ " کی نفی مراد ہے مطلق دیدار کی نفی مراد نہیں ہے جس سے یہ اشکال واقع ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی بات اس آیت کے خلاف پڑتی ہے ۔
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت نے اپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا ۔" میں دو مرتبہ " کی وضاحت بعض محدثین نے یہ کی ہے کہ ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے قریب اور ایک مرتبہ عرش پر اور ملا علی قاری نے اس جملہ کے تحت یہ لکھا ہے کہ " دو مرتبہ دیکھا " سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں مرتبہ دل کی آنکھوں سے دیکھا اور ایک مرتبہ سر کی آنکھوں سے یہ اختلاف مطالب اس لئے ہے کہ کسی بھی روایت میں وضاحت کے ساتھ منقول نہیں ہے (جیسا کہ اس روایت میں بھی نہیں ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دوبار دیکھا۔