شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدار الہٰی :
راوی:
عن أبي ذر قال سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم : هل رأيت ربك ؟ قال : " نور أنى أراه " . رواه مسلم
" حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں ) اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! پروردگار تو ایک نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔" (مسلم)
تشریح :
پروردگار تو ایک نور ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات ، جسم ومکان کی قیود سے ماوراء ایسا نور عظیم ہے جس کی نورانیت کا کمال اور جس کے ظہور کی شدت نہ انسان کے ادراک میں آسکتی ہے اور نہ نگاہ وبصر کو اتنی تاب کہ اس کی خیرہ کردینے والی تجلیات کے سامنے ٹھہر سکے واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو خود قرآن کریم " نور" سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا ارشاد ہوا اللہ نور السموت والارض ۔ (اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ) یعنی کائنات میں ہر طرف اسی تجلیات کا ظہور ہے، اور جو چیز نظر آتی ہے اسی کی روشنی کی بدولت نظر آتی ہے نیز جو چیزیں زمین وآسمان کو روشنی بہم پہنچاتی ہیں جسے سورج ، چاند اور ستارے وغیرہ وہ سب اسی کی روشن کی ہوئی ہیں یا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہدایت ہے اور زمین پر بسنے والوں اور آسمان میں رہنے والوں ہر ایک کو وہی ہدایت کرنے والا ہے اور اسی کا نور ہدایت بندوں کے دلوں ودماغ کو روشن کرنے والا ہے ، نیز پرودگار کے ناموں میں سے ایک نام " نور" بھی ہے یعنی وہ خود بھی ظاہر وروشن ہے اور دوسروں کو ظاہر روشن کرنے والاہے ۔
" نور انی اراہ " میں لفظ انی کتاب کے اکثر نسخوں میں الف کے زبر اور نون کی تشدید کے ساتھ ہی منقول ہے اور اسی کے اعتبار سے یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ " اللہ تو ایک نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔" لیکن بعض نسخوں میں نور اور انی الگ الگ لفظ کے بجائے ایک ہی لفظ یعنی نور انی منقول ہے (جس میں ی مشدد نسبت کے لئے ہیں اور الف اور نون زائد مبالغہ کے لئے ہیں) اس صورت میں اراہ کا لفظ اظنہ کا مفہوم ادا کرے گا اور رویۃ بمعنی رائے سے مشتق سمجھا جائے گا اور قال نورانی اراہ کا یہ ترجمہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ' ' میں اس (پروردگار کو نورانی گمان کرتا ہوں۔ پس لفظ اراہ کو اگر الف کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی کے اعتبار سے زیادہ مناسب وموزوں ہوگا۔
ابن مالک نے اس حدیث کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھایا نہیں؟ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں کھلی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوا ہے اور جو حضرات اس کا انکار کرتے ہیں دونوں ہی فریق الفاظ روایت کے مذکورہ بالا اختلاف کے سبب اس حدیث کو اپنی اپنی دلیل قرار دیتے ہیں کیونکہ اگر " نور انی اراہ " کی روایت کو سامنے رکھا جائے تو اس جملہ کے ، استفہام بطریق انکار کے اسلوب کے پیش نظر اس عبارت کا مطلب یہ ہوگا کہ پروردگار کی ذات چونکہ نور محض ہے اور کوئی انسانی آنکھ اس کی طرف نظر اٹھانے پر قادر ہی نہیں ہوسکتی اس لئے میں کہتا ہوں کہ میں نے معراج کی رات میں اپنے پروردگار کو نہیں دیکھا ہے لیکن اگر نورانی اراہ کی روایت کو دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے البتہ یہ کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہنے کے لئے حکایت ماضی صیغہ حال کا اسلوب اختیار فرمایا۔