جنت میں زراعت کی خواہش اور اس کی تکمیل
راوی:
وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يتحدث – وعنده رجل من أهل البادية – : " إن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه في الزرع . فقال له : ألست فيما شئت ؟ قال : بلى ولكن أحب أن أزرع فبذر فبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده فكان أمثال الجبال . فيقول الله تعالى : دونك يا ابن آدم فإنه يشبعك شيء " . فقال الأعرابي : والله لا تجده إلا قرشيا أو أنصاريا فإنهم أصحاب زرع وأما نحن فلسنا بأصحاب زرع فضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه البخاري
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی مسلمان بیٹھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث ارشاد فرما رہے تھے کہ : " جنتیوں میں ایک شخص اپنے پروردگار سے کھیتی کی اجازت طلب کرے گا ، اللہ وند تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ موجود نہیں ؟ (یعنی جب یہاں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی تمہیں خواہش ہو، تو پھر کھیتی کرنے کی کیا ضرورت ہے ) وہ شخص عرض کرے گا کہ بے شک یہاں سب کچھ موجود ہے لیکن میری خواہش یہی ہے کہ میں کھیتی کروں۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہرحال اس شخص کو کھیتی کرنے کی اجازت دیدی جائے گی اور وہ زمین میں بیج ڈالے گا اور پلک جھپکتے ہی سبزہ اگ آئے گا اور جب ہی کھیتی بڑھ کر پک کر کٹ جائے گی اور پہاڑ کے برابر انبار لگ جائیں گے، تب اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا : " ابن آدم ! دیکھ تیری خواہش پوری ہوگئی ، حقیقت یہ ہے کہ تیری حرص کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرتی ۔" روای کہتے ہیں کہ (یہ حدیث سن کر) وہ دیہاتی ( جو حضور کے پاس بیٹھا تھا، کہنے لگا اللہ کی قسم ، وہ شخص یقینا یا تو قریشی ہوگا یا انصاری (یعنی جنت میں کھیتی کرنے کی خواہش کرنے والا شخص یا تو مکہ والوں میں سے ہوگا یا مدینے والوں میں سے، کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں جہاں تک ہم صحرانشین دیہاتیوں کا تعلق ہے، کھیتی باڑی سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے (ہم جنگلوں میں اونٹ بکری چرا کر اور محنت مزدوری کرکے دودھ اور کھجوروں پر گزارہ کرلیتے ہیں ان چیزوں کے علاوہ ہمیں اور کسی چیز کی خواہش نہیں ہے ) پس (اس دیہاتی کی یہ بات سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔" (بخاری)
تشریح :
تیری حرص کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرتی " کا مطلب یہ ہوگا کہ آدم زادے !یہ تو ہوگیا کہ تونے ایک خواہش ظاہر کی اور ہم نے تیری وہ خواہش آن واحد میں پوری کردی مگر ذرا سوچ کہ جنت میں تجھے ان گنت نعمتیں حاصل ہونے اور تیری خواہش کی ہر چیز تجھے میسر ہونے کے باوجود تونے کھیتی باڑی کرنے جو عجیب وغریب خواہش ظاہر کی وہ کس بات پر دلالت کرتی ہے کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیری حرص کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتا اور عیش وتنعم کی آخری سے آخری حد بھی تجھے قناعت تک نہیں پہنچا سکتی اس سے معلوم ہوا کہ حرص اور ترک قناعت انسان کی جبلت میں داخل ہے اور یہ ایک ایسی خصلت ہے جو اس میں سے نکل نہیں سکتی خواہ وہ جنت میں کیوں نہ پہنچا ہوا ہو