سدرۃ المنتہی کا ذکر
راوی:
وعن أسماء بنت أبي بكر قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكر له سدرة المنتهى قال : " يسير الراكب في ظل الفنن منها مائة سنة أو يستظل بظلها مائة راكب – شك الراوي – فيها فراش الذهب كأن ثمرها القلال " رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
" اور حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ اس وقت جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سدرۃ المنتہی کا ذکر کیا گیا ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( سدرۃ المنتہی ایسا درخت ہے کہ ) کوئی ( تیز رفتار ) سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سو سال تک چلتا رہے یا یہ فرمایا کہ اس کے سائے میں بیک وقت سو سوار دم لے سکیں ، اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں گویا اس کے پھل مٹکوں کے برابر ہیں ۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ "
تشریح :
" سدرۃ المنتہی " کے معنی ہیں " بیری کا وہ درخت جس پر انتہاء ہے ۔ " اس درخت کو " سدرۃ المنتہی " اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ جنت کے اس انتہائی کنارے پر واقع ہے جس کے پرے کسی کو کچھ علم نہیں کیا ہے ، اس کے آگے کسی فرشتے تک کو جانے کا حکم نہیں ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آخری رسائی بھی یہیں تک ہے ، اس کے آگے وہ بھی نہیں جاسکتے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں اس درخت سے آگے گئے ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق یہ درخت چھٹے آسمان پر ہے لیکن مشہور روایت یہ ہے کہ ساتویں آسمان پر ۔
" اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں ۔ " سے شاید یہ مراد ہے کہ اس درخت پر جو نوارنی فرشتے ہیں ان کے پر اس طرح چمکتے اور جھلملاتے ہیں جیسے اس کی شاخوں پر سونے کی چمکدار ٹڈیاں ادھر ادھر پھدک رہی ہوں یا یہ کہ اس درخت سے جو انوار اٹھتے ہیں اور شاخوں پر ایک خاص قسم کی روشنی پھوٹتی رہتی ہے اس کو سونے کی " ٹڈیاں " سے تعبیر فرمایا ۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد " اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں ۔ " دراصل اس آیت کریمہ (اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى) 53۔ النجم : 16) ( جب اس سدرۃ المنتہی کو ڈھانپ رکھا جو کچھ کہ ڈھانپتا ہے ) کی تفسیر ہے ، چنانچہ بیضاوی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی جماعت جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہے اس درخت کو ڈھانپے رہتی ہے ۔