جنت کا خیمہ
راوی:
وعن أبي موسى قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن للمؤمن في الجنة لخيمة من لؤلؤة واحدة مجوفة عرضها وفي رواية : طولها ستون ميلا في كل زاوية منها أهل ما يرون الآخرين يطوف عليهم المؤمن وجنتان من فضة آنيتهما ما فيهما وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما وما بين أن ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن " . متفق عليه
" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مومن کو جنت میں جو خیمہ ملے گا وہ پورا ایک کھوکھلا موتی ہوگا جس کا عرض ایک اور روایت میں ہے کہ " جس کا طول ساٹھ کوس کی مسافت کے بقدر ہوگا ، اس خیمہ کے ہر گوشہ میں اس ( مومن ) کے اہل خانہ ہونگے اور ایک گوشہ کے آدمی دوسرے گوشہ کے آدمیوں کو نہیں دیکھ سکیں گے ۔ ان سب اہل خانہ کے پاس مومن آتا جاتا رہے گا ۔ ( مومن کے لئے ) دو جنتیں چاندی کی ہوں گی کہ ان جنتیوں کے برتن ، باسن ( مکانات ومحلات اور خانہ داری کے دوسرے ضروری وآرائشی سامان تخت کرسی میز پلنگ ، جھاڑ ، فانوس ، یہاں تک درخت وغیرہ ) سب چاندی کے ہوں گے اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی کہ ان جنتوں کے برتن باسن اور ان میں ہر چیز سونے کی ہوگی ، اور جنت العدن میں جنتیوں اور پروردگار کی طرف سے ان کے دیکھنے کے درمیان ذات باری تعالیٰ کی عظمت وبزرگی کے پردہ کے علاوہ اور کوئی چیز حائل نہیں ہوگی ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ زیادہ صحیح اس روایت کے الفاظ ہیں جس میں اس خیمہ کا عرض ساٹھ کوس کی مسافت کے بقدر بیان کیا گیا ہے یا اس روایت کے الفاظ زیادہ صحیح ہیں جس میں خیمہ کے طول کو ساتھ کوس کی مسافت کے بقدر بتایا گیا ہے ، اصل مقصد اس خیمہ کی وسعت وکشادگی کو بیان کرنا ہے جو دونوں روایتوں سے حاصل ہو جاتا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس خیمہ کی چوڑائی ساتھ کوس کے بقدر ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی لمبائی کتنی زیادہ ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کی لمبائی ساٹھ کوس کی مسافت کے بقدر ہے تو اس پر قیاس کر کے اس کی چوڑائی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے ۔
" اہل خانہ " سے مراد بیوی وغیرہ ہیں ! اور ایک شارح نے لکھا ہے کہ " اہل " سے مراد بیویاں ہیں جو اس مومن کو وہاں ملیں گی اور جن سے وہ جنسی لذت حاصل کرے گا ، چنانچہ " آتا جاتا رہے گا " کے الفاظ کے ذریعہ اسی بات کو کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ مومن اپنی ان بیویوں کے ساتھ جنسی اختلاط کرتا رہے گا ۔
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو جنتیں خالص چاندی کی اور دو جنتیں خالص سونے کی ہوں گی جب کہ ایک روایت میں جنت کی عمارتوں اور محلات کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں جو اینٹیں لگی ہوں گی ان کی ترتیب یہ ہوگی کہ ایک اینٹ تو سونے کی ہوگی اور ایک اینٹ چاندی کی ۔ پس ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہوگی کہ پہلی روایت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو جنت کے اندر ہوں گی، جیسے برتن ، باسن اور دیگر اشیاء چنانچہ ایک جنت میں تو تمام چیزیں سونے کی ہوں گی اور ایک جنت میں تمام چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دوسری روایت میں جنت کی عمارتوں کی خوبی بیان کی گئی ہے کہ جنت کی ہر عمارت و محل کی دیوار میں سونے اور چاندی کی اینٹیں ہوں گی ۔
جنتوں کی تعداد اور ان کے نام
علامہ بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جنتیں چار ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورت رحمن میں فرمایا ہے ۔
(وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ) 55۔ الرحمن : 46)
" اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ( ہر وقت ) ڈرتا ہو اس کے لئے دو جنتیں ہیں ۔ "
اس کے بعد کی آیتوں میں ان دونوں جنتوں کی تعریف وتوصیف بیان فرمائی گئی ہے ، اور پھر ارشاد ہوا ۔
(وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ) 55۔ الرحمن : 16)
" اور ان دوجنتوں سے کم درجہ میں دو جنتیں اور ہیں ۔ "
پہلی دو جنتوں کی طرح آگے کی آیات میں ان دوجنتوں کی بھی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے رہی حدیث کی بات تو اوپر حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کہ یہ الفاظ جنتان من فضۃ انیتہما وما فیہا وجنتان من ذہب انیتہما وما فیہا اس پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ جنتیں چار ہیں اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ جنتان من الذہب للسابقین وجنتان من فضۃ لا صحاب الیمین ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں " جنتان " ( دو جنتوں ) کا جو لفظ ہے اس سے جنت کی دو قسمیں مراد ہوں یعنی ان جنتوں میں سے ایک سونے کی اور دوسری چاندی کی ہوگی ۔ حاصل یہ نکلا کہ اصل میں چار جنتیں ہیں ، دو سونے کی ہیں جو خاص مقربین کے لئے ہیں اور دو چاندی کی ہیں جو عام مومنین کے لئے ہیں ، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ " جنتان " گو تثنیہ کا صیغہ ہے مگر بعض موقعوں پر تثنیہ کا صیغہ ہے مگر بعض موقعوں پر تثنیہ سے کثرت ( یعنی دو سے زائد کی تعداد بھی مراد ہوتی ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ " جنتان " سے مراد چار چار جنتیں ہوں اور " کاملین " کو ان دو اصل جنتوں کے علاوہ جو دو جنتیں اور عطا ہوں جو سونے اور چاندی ہی کی ہوں گی اور وہ جنتیں زیبائش وخوشنمائی کے لئے ان کاملین کے محلات کے دائیں بائیں واقع ہوں گی، اس کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں جنت کے تعلق سے آٹھ نام ذکر ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں (١) جنت العدن (٢) جنت الفردوس (٣) جنت الخلد (٤) جنت النعیم ( ٥) جنت الماوی (٦) دار السلام ( ٧) دار القرار ( ٨) دار المقامہ ۔
" اور جنت العدن میں جنتیوں اور پروردگار کی طرف ان کو دیکھنے ۔۔ الخ۔ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب جنتی لوگ جنت میں پہنچ جائیں گے تو وہ جسمانی حجاب اور طبعی کدورتیں جو بندے اور پروردگار کے دیدار کے درمیان حائل ہوتی ہیں اٹھ جائیں گی مگر ذات مقدس کی کبریائی وعظمت اور ہیبت وجلال کا پردہ باقی رہے گا تا ہم اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل وکرم سے اس پردہ کو بھی اٹھا دے گا یعنی نظروں کو تاب دیدار بخش دے گا اور جنتی لوگ اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔