مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان ۔ حدیث 179

جنت کا ذکر

راوی:

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قال الله تعالى : أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر . واقرؤوا إن شئتم : ( فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة عين )
متفق عليه

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! " میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیز تیار کر رکھی ہے کہ ( آج تک ) نہ کسی آنکھ نے اس ( جیسی کسی چیز ) کو دیکھا ہے نہ کسی کان نے ( اس جیسی خوبیوں کا ) سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ( اس کی ماہیت کا تصور تک آیا ہے اگر تم اس بات کی تصدیق چاہو تو یہ آیت پڑھو : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ) 32۔ السجدہ : 17) ( بخاری ومسلم ) کوئی بھی شخص نہیں جانتا ( جو بندے شب بیداری کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ) ان کے لئے کیا چیز چھپا رکھی گئی ہے جو آنکھ کی ٹھنڈک کا سبب ہے ۔ "

تشریح :
" ۔۔۔ نہ کسی آنکھ نے الخ کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ اس چیز ( یعنی جنت ) کے مظاہر شکل وصورت آوازیں اور خاطر داریاں مراد ہوں ، مطلب یہ کہ وہاں جو اعلی مناظر ہوں گے اور وہاں جو نظر افروز شکلیں اور صورتیں دکھائی دیں گی ان جیسے مناظر اور جیسی شکلیں اور صورتیں اس دنیا میں نہ دیکھی گئی ہیں اور نہ کبھی دیکھیں جا سکتی ہیں ، اسی طرح وہاں کی آوازوں میں جو مٹھاس ، نغمگی اور دلکشی ہوگی ، ایسی میٹھی ، نغمیہ ریز اور دلکش آوازیں اس دنیا میں آج تک نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کبھی سنی جا سکتی ہیں ، اور ایسے ہی وہاں جو خاطر ومدارت ہوں گی ، جو نعمتیں اور لذتیں حاصل ہوں گی ، ان کا تصور بھی اس دنیا میں آج تک کسی انسان کے دل میں نہیں آیا ہوگا اور نہ کبھی اس کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے ۔
آیت میں جس چیز کو آنکھ کی ٹھنڈک سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے فرحت وشادمانی ، چین وراحت اور مقصود مراد پانا ہے ! واضح رہے کہ ( آنکھ کی ٹھنڈک ) میں لفظ قرۃ دراصل قر سے نکلا ہے جس کے معنی ثبات وقرار کے ہیں ۔ چنانچہ آنکھ جب اپنی محبوب چیز کو دیکھتی ہے تو قرار پاجاتی ہے اور اس طرح مطمئن ہو جاتی ہے کہ کسی اور طرف مائل نہیں ہوتی اس کے برخلاف جب آنکھ کسی غیر پسندیدہ اور ناگوار چیز کو دیکھتی ہے اور اس کی محبوب شی سامنے نہیں ہوتی تو وہ پریشان اور کھوئی سی رہتی ہے اور کسی ایک سمت قرار پانے کے بجائے ادھر ادھر بھٹکنا شروع کر دیتی ہے ایسے ہی فرحت وسرور اور راحت واطمینان کی حالت میں آنکھوں کو عجیب طرح کا کیف وسکون اور آرام ملتا ہے جب کہ خوف وغم کی حالت میں وہ متحرک ومضطرب ہو جاتی ہیں ۔
یا یہ کہ " قرۃ " کے لفظ " قر " سے مشق ہے جے جس کے معنی " ٹھنڈک اور خشکی " کے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنکھ کی ٹھنڈک سی مراد وہ مخصوص لذت وکیف ہے جو محبوب اور پسندیدہ چیز کو دیکھ کر اور اپنا مقصود ومطلوب پا کر آنکھ محسوس کرتی ہے ، اس کے برخلاف آنکھ جب کسی غیر پسندیدہ اور ناگوار چیز اور دشمن کو دیکھتی ہے اور مطلوب ومقصود کے انتظار میں ہوتی ہے تو گویا اس وقت وہ ایک خاص جلن اور سوزش محسوس کرتی ہے ! اسی مناسبت سے " پیاری اولاد " کو قرۃ العین یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا جاتا ہے ! نیز ایک حدیث میں جو یوں آیا ہے کہ جعلت قرۃ عینی فئی الصلوۃ ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز رکھی گئی ہے تو اس میں بھی لفظ قرۃ کے دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ! جیسا کہ اپنے موقع پر اس حدیث کی تشریح میں ذکر ہو چکا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں