مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 175

شفاعت اور پل صراط کا ذکر

راوی:

وعن حذيفة وأبي هريرة قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يجمع الله تبارك وتعالى الناس فيقوم المؤمنون حتى تزلف لهم الجنة فيأتون آدم فيقولون : يا أبانا استفتح لنا الجنة . فيقول : وهل أخرجكم من الجنة إلا خطيئة أبيكم لست بصاحب ذلك اذهبوا إلى ابني إبراهيم خليل الله " قال : " فيقول إبراهيم : لست بصاحب ذلك إنما كنت خليلا من وراء وراء اعمدوا إلى موسى الذي كلمه الله تكليما فيأتون موسى عليه السلام فيقول : لست بصاحب ذلك اذهبوا إلى عيسى كلمة الله وروحه فيقول عيسى : لست بصاحب ذلك فيأتون محمدا صلى الله عليه و سلم فيقوم فيؤذن له وترسل الأمانة والرحم فيقومان جنبتي الصراط يمينا وشمالا فيمر أولكم كالبرق " . قال : قلت : بأبي أنت وأمي أي شيء كمر البرق ؟ قال : " ألم تروا إلى البرق كيف يمر ويرجع في طرفة عين . ثم كمر الريح ثم كمر الطير وشد الرجال تجري بهم أعمالهم ونبيكم قائم على الصراط يقول : يا رب سلم سلم . حتى تعجز أعمال العباد حتى يجيء الرجل فلا يستطيع السير إلا زحفا " . وقال : " وفي حافتي الصراط كلاليب معلقة مأمورة تأخذ من أمرت به فمخدوش ناج ومكردس في النار " . والذي نفس أبي هريرة بيده إن قعر جهنم لسبعين خريفا . رواه مسلم

اور حضرت حذیفہ و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " قیامت کے دن ) بابرکت وبلند قدر پروردگار ( میدان حشر میں ) لوگوں کو جمع کرے گا اور پھر تمام مؤمن ( حساب وکتاب اور آخری فیصلہ کے انتظار میں ) کھڑے ہوں گے کہ جنت کو ان کے قریب کر دیا جائے گا پس ( ہر امت کے خاص خاص ) مومن حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے باپ ! ہمارے لئے جنت کو کھول دیجئے ( تاکہ ہم اپنی اس ابدی آرام گاہ میں داخل ہو جائیں ) حضرت آدم علیہ السلام ان کو جواب دیں گے کہ ( کیا تم نہیں جانتے ) تمہیں جنت سے تمہارے باپ ہی کے گناہ نے نکلوایا تھا ( لہٰذا ) اس کام ( یعنی تمارے حق میں شفاعت کرنے اور جنت کھلوانے ) کا اہل میں نہیں ہوں ، تم لوگ میرے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے دوست اور اللہ کے رسولوں میں افضل اور خاتم الانبیاء کے جد اعلی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لوگ میرے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے ان سے وہی عرض کریں گے جو انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام سے عرض کیا تھا ) حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان کو یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں ، میں اللہ کا دوست ، آج سے پہلے پہلے ہی تھا ، تم لوگ موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے شرف سے نوازا ہے چنانچہ وہ لوگ حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں ، تم لوگ عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ! چنانچہ ( وہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ) حضرت عیسی علیہ السلام بھی یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں آخر کار ( اس وقت یہ بات واضح ہوجائے گی کہ شفاعت کا انحصار صرف خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کیونکہ بارگاہ رب العزت میں سب سے زیادہ قرب وعزت انہی کو حاصل ہے اور تمام انبیاء و رسولوں میں سے سب سے زیادہ ممتازومشہور انہی کی ذات ہے ، چنانچہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( عرش الہٰی کے دائیں جانب ) کھڑے ہو کر تمام نوع انسانی کو میدان حشر کی سختیوں اور پریشانیوں سے راحت دلانے کی شفاعت کرنے کی اجازت طلب کریں گے ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت عطا کی جائے گی ( اور جیسا کہ پیچھے گزرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ رب العزت میں پیش ہو کر سجدہ میں گر پڑیں گے اور پھر حکم الٰہی پر سر اٹھائیں گے اور عرض ومعروض کریں گے ) پھر جب حساب وکتاب کا مرحلہ گزر جائے گا اور تمام لوگ پل صراط کے اوپر سے گزرنے والے ہوں گے تو امانت دار اور رحم ( ناطے ) کو ( صورت دے کر ) لایا جائے گا اور یہ دونوں ( اپنا حق اور انصاف مانگنے کے لئے ) پل صراط کے دائیں بائیں دونوں طرف کھڑے ہو جائیں گے پھر ( پل صراط سے لوگوں کا گزرنا شروع ہوگا تو ایک طبقہ جو تم میں سب سے افضل ہوگا اور سب سے پہلے گزرے گا بجلی کی طرح ( نہایت سرعت سے ) پل پار کر جائے گا ۔ " حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ( یہ سن کر ) عرض کیا کہ ( یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، بجلی کی طرح گزرنے کی صورت کیا ہوگی ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " کیا تم نہیں دیکھتے کہ بجلی کی چمک کس طرح گزر جاتی ہے اور پل چھپکتے ہی واپس آ جاتی ہے ( مطلب یہ ہے ) کہ یہ لوگ پل صراط پر سے بس اسی طرح ) گزریں گے اور ان کو ان کے اعمال کی طاقت ونورانیت اور پاگیزگی آگے بڑھائے گی ( یعنی جس کے اعمال جس درجہ کے ہوں گے اس کے گزرنے کی رفتار بھی اسی درجہ کی ہوگی ) اور اس وقت جب کہ مسلمان پل صراط کے اوپر سے گزر رہے ہوں گے ) تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پل صراط پر کھڑے ہوئے یہ کہے جار ہے ہوں گے کہ ۔
( یعنی پروردگار ! ان کو سلامتی کے ساتھ گزار دے ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ ) اور پھر کچھ بندوں کے اعمال عاجز ہوں گے ، یعنی جن بندوں کے اعمال ناقص وکمتر ہوں گے یا وہ ایسے اعمال نہ رکھتے ہوں گے جن کی بنا پر انہیں پل پار کرنے میں مدد ملے تو وہ لوگ پل پر سے گزرتے وقت سخت قسم کی پریشانیوں اور رکاوٹوں میں گھر جائیں گے ) یہاں تک کہ ایک شخص ( جو اپنے اعمال کی بہت زیادہ خرابی کی وجہ سے چلنے پر بالکل ہی قادر نہیں ہوگا ) گھسیٹتا ہوا اور کولہوں کے بل سرکتا ہوا آئے گا ۔ " اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اور پل صراط کے دونوں طرف آنکڑے لٹکے ہوں گے اور ان کو ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) یہ حکم دیا گیا ہوگا کہ وہ ہر اس شخص کو گرفت میں لے لیں جو قابل گرفت قرار پاچکا ہے ، چنانچہ وہ آنکڑے ایسے ہونگے کہ لوگوں کو پکڑیں گے اور پھر ) ان میں سے کچھ لوگ تو ان آنکڑوں کی مصیبت جھیل کر اور زخمی ہو کر ( دوزخ کی آگ سے ) نجات پا جائیں گے اور کچھ لوگوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان ہے دوزخ کا گہرا و ستر برس کی مسافت کی راہ کے برابر ہے ۔ " ( مسلم )

تشریح :
" جنت کو ان کے قریب کر دیا جائے گا ۔ " کے دریعہ سورت تکویر کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ۔
(وَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ 13 عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا اَحْضَرَتْ 14 ) 81۔ التکویر : 79)
" اور قیامت کے دن میدان حشر میں جنت جب قریب لائی جائے گی تب ہر شخص معلوم کرے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے ۔ "
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان کو یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں ۔۔ الخ۔ کے ضمن میں ایک شارح نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ بات اظہار تواضح وانکسار کے طور پر کہیں گے کہ اس بلند درجہ کا لائق میں نہیں ہوں گویا ان کا مطلب یہ ہوگا کہ پروردگار کی جانب سے مجھے جو بھی فضیلت وخصوصیت اور عزت عطا ہوئی ہے وہ حضرت جرائیل علیہ السلام کے واسطہ سے مجھ تک پہنچی ہے ، لہٰذا تمہیں موسی علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے کیونکہ ان کو عطا ہونے والی فضیلت وخصوصیت ۔
اور عزت یعنی پروردگار سے ہمکلامی کی سعادت بغیر کسی واسطہ کے براہ راست حاصل ہوئی ہے ۔
وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے " اس موقع پر یہ کہنے کے بجائے کہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اسم شریف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کیا اور فرمایا کہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ " محمد " میں حمد کے معنی ہیں اور اس کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن " مقام محمود " پر کھڑے ہوں گے جو مقام شفاعت ہے ۔
" ایک طبقہ جو تم میں سب سے پہلے گزرے گا ۔۔ الخ۔ " کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طبقہ سے انبیاء علیہم السلام کا طبقہ مراد ہے تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس امت کے اولیاء وصلحاء کا طبقہ مراد ہو ۔

یہ حدیث شیئر کریں