رحمت خداوندی کے دو مظاہر
راوی:
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إن رجلين ممن دخل النار اشتد صياحهما فقال الرب تعالى : أخرجوهما . فقال لهما : لأي شيء اشتد صياحكما ؟ قالا : فعلنا ذلك لترحمنا . قال : فإن رحمتي لكما أن تنطلقا فتلقيا أنفسكما حيث كنتما من النار فيلقي أحدهما نفسه فيجعلها الله بردا وسلاما ويقوم الآخر فلا يلقي نفسه فيقول له الرب تعالى : ما منعك أن تلقي نفسك كما ألقى صاحبك ؟ فيقول : رب إني لأرجو أن لا تعيدني فيها بعد ما أخرجتني منها . فيقول له الرب تعالى : لك رجاؤك . فيدخلان جميعا الجنة برحمة الله " . رواه الترمذي
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !" ( اہل ایمان میں سے ) جو لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں ) دوزخ میں داخل ہوں گے ان میں سے دو آدمی بہت زیادہ شور مچائیں گے ( یعنی رونا دھونا اور آہ وفریاد شروع کر دیں گے اور خوب چیخیں چلائیں گے ) پروردگار ( دوزخ کے فرشتوں کو ) حکم دے گا کہ ان دونوں کو باہر نکالو اور جب وہ باہر آئیں گے تو ) ان سے فرمائے گا کہ کیوں اس قدر چیخ چلا رہے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم اس لئے چیخ چلا رہے تھے تاکہ آپ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہو جائے ( اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ آپ اس شخص کو پسند کرتے ہیں جو آپ کے آگے روئے دھوئے اور آہ و فریاد کرے ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارے حق میں میری رحمت یہی ہے کہ تم واپس جاؤ اور دوزخ میں جہاں تھے وہیں پڑے رہو ۔ " ان میں سے ایک شخص تو ( یہ سنتے ہی کامل اطاعت اور رضائے الہٰی کی طلب میں ) واپس ہو جائے گا اور خود کو دوزخ کی آگ میں ڈال دے گا اور اللہ تعالیٰ اس آگ کو اس کے لئے ٹھنڈا کر دے گا ( کہ جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کو گل وگلزار بنا دیا تھا ) اور دوسرا شخص ( اپنے کو اس معاملہ میں بالکل بے بس پاتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم پر کامل یقین رکھتے ہوئے ) وہیں کھڑا رہے گا اور خود کو آگ میں نہیں ڈالے گا ! اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے خود کو آگ میں کیوں نہیں ڈالا جب کہ تیرا ساتھی ( میرا حکم سنتے ہی چلا گیا اور ) آگ میں کود پڑا ؟ وہ عرض کریے گا کہ پروردگار میں تو اسی امید پر قائم ہوں کہ آپ نے جب مجھے دوزخ سے باہر بلوا لیا تو اب : دوبارہ وہاں نہیں بھیجیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ! تو نے جو امید قائم کی ہے وہ تیرے حق میں پوری کی جاتی ہے ۔ چنانچہ وہ دونوں شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کے صدقہ میں ایک ساتھ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے ۔ " (ترمذی)
تشریح :
" تمہارے حق میں میری رحمت یہی ہے کہ تم واپس جاؤ ۔۔ الخ۔ کے سلسلے میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ دوزخ میں واپس جا کر سپرد آگ ہونے کو رحمت پر کس اعتبار سے حمل کیا گیا ہے ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہوگا کہ یہ ارشاد اصل سبب کو سبب پر حمل کرنے کے اسلوب سے تعلق رکھتا ہے ! وضاحت کے ساتھ اس بات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو دوزخ میں ان کے اس قصور کی پاداش میں داخل کیا جائے گا کہ انہوں نے اس بات کی اطاعت کے حکم کے ذریعہ کہ ' وہ دوزخ میں واپس جا کر اپنے آپ کو آگ کے سپرد کردیں اس امر پر تنبیہ کی جائے گی کہ رحمت الٰہی کا مستحق وہی شخص ہوتا ہے جو ہر حالت میں اس کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ۔
" تو نے جو امید قائم کی ہے وہ تیرے حق میں پوری کی جاتی ہے ۔ ' ' سے یہ ثابت ہوا کہ بندہ کا پروردگار پر امید باندھنا اس کے عطاء وکرم کے حصول میں بہت موثر ہے ، خواہ وہ بندہ اپنے عجز ونا تو انی کے سبب اطاعت و فرمانبرداری کے دائرہ سے باہر ہی نکلا ہوا کیوں نہ ہو ۔