حساب وکتاب کے بغیر جنت میں جانے والے
راوی:
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله عز و جل وعدني أن يدخل الجنة من أمتي أربعمائة ألف بلا حساب " . فقال أبو بكر زدنا يا رسول الله قال وهكذا فحثا بكفيه وجمعهما فقال أبو بكر : زدنا يا رسول الله . قال : وهكذا فقال عمر دعنا يا أبكر . فقال أبو بكر : وما عليك أن يدخلنا الله كلنا الجنة ؟ فقال عمر : إن الله عزوجل إن شاء أن يدخل خلقه الجنة بكف واحد فعل فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " صدق عمر " رواه في شرح السنة
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ عزوجل نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمیوں کو بلا حساب وکتاب ( اور مواخذہ وعذاب میں مبتلا کئے بغیر ) جنت میں داخل کرے گا ۔ " حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( یہ سن کر ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری اس تعداد میں اضافہ کر دیجئے ( یعنی اللہ تعالیٰ سے اس تعداد میں اور اضافہ کرنے کی درخواست کیجئے ، یا یہ کہ پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اس کو بڑھا کر بیان کیجئے ) کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت الٰہی پر اعتماد کر کے ہم سے جتنا زیادہ سے زیادہ بیان کردیں گے اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمائے گا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اچھا ، اتنا اور زیادہ " ( یہ کہہ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو یکجا کر کے چلو بنایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری اس تعداد ومقدار میں اور اضافہ کر دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ( چلو بنا کر ) کہا کہ " اچھا اتنا اور زیادہ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس مجلس میں موجود تھے ، انہوں نے محسوس کر کے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( بس اب ) ہمیں ہمارے حال پر رہنے دیجئے ( یعنی اتنی رعایت نہ کرائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کرم عنایت ہی پر اعتماد کر کے پیٹھ جائیں اور عذاب الٰہی کے خوف سے اس طرح بے فکر ہو جائیں کہ عمل کرنا ہی ترک کر دیں ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( یہ سن کر ) کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سب کو ( بغیر حساب ومواخذہ کے ) جنت میں بھیج دے تو تمہارا کیا نقصان ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اگر اللہ عزوجل اپنی ساری مخلوق کو جنت میں داخل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ( پھر بار بار اضافہ کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بات سن کر ) فرمایا " عمر نے بالکل سچ کہا ۔ " اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے ۔ "
تشریح :
" ( یہ کہہ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو یکجا کر کے چلو بنایا " یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر گویا ان کے آگے کیا اور فرمایا کہ اتنے اور لوگوں کا اضافہ کرتا ہوں ! اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چلو بنانا اور یہ کہنا کہ " اچھا اتنا اور زیادہ " دراصل حق تعالیٰ کے فعل کی حکایت کے طور پر تھا ' یعنی یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ میں نے بلا حساب جنت میں جانے والوں کی مذکورہ کی تعداد متعین طور پر بیان نہیں کی ہے بلکہ اس تعداد سے " کثرت " مراد ہے ، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چلو بھر کر یعنی بیشمار اور بے تعداد لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا اس لئے حدیث کے شارحین نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر چلو بنانے کی تمثیل اس حقیقت کے پیش نظر اختیار کی کہ دل کھول کر دینے والے کی شان یہی ہوتی ہے کہ جب اس سے زیادہ دینے کی درخواست کی جاتی ہے تو وہ تعداد ومقدار سے صرف نظر کر کے چلو بھر بھر کر بے حساب دیتا ہے ۔ پس چلو بھر کر دینا " دراصل ایک تمثیل ہے جو زیادہ سے زیادہ دینے کی شان کو ظاہر کرتی ہے ۔
اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعلق سے جو کچھ ذکر ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذکورہ مسئلہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی ذہنی وفکری اور نیاز مندی اور درخواست گزاری کے قبیل سے تھا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کہا وہ اظہار عجزوبیچارگی ، رحمت اللہ وندی کے تئیں بھر پور امیدواری اور نیاز مندی اور درخواست گزاری کے قبیل سے تھا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کہا وہ مصلحت وحکمت اور تسلیم ورضا کے قبیل سے تھا ، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی کہ پہلے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درخواست کو قابل اعتناء قرار دیا اور ان کو وہ جواب نہیں دیا جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق کر کے ان کو بھی مزید پسندیدگی عنایت فرما دی ! اس بات کو ایک دوسرے نکتہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درخواست کا مثبت جواب دے کر گویا یہ ظاہر فرمایا کہ عمل کے راستہ پر لگنے اور دین شریعت کی طرف متوجہ رہنے میں ایک بڑا دخل " بشارت کا بھی ہے ' لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بشارت کو ( کہ اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی تعداد کو بلا حساب جنت میں داخل کرے گا ) اور زیادہ وسعت عطا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی تصدیق کر کے اس طرف اشارہ کیا کہ ۔۔۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بات کہی ہے وہ بشارت ہی ہے بلکہ پہلی بشارت سے بھی بڑی بشارت ہے ۔ اس اعتبار سے دونوں کا مافی الضمیر ایک ہی تھا ۔