مقام محمود اور پروردگار کی کرسی کا ذکر
راوی:
وعن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه و سلم قا ل : قيل له ما المقام المحمود ؟ قا ل : " ذلك يوم ينزل الله تعالى على كرسيه فيئط كما يئط الرحل الجديد من تضايقه به وهو كسعة ما بين السماء والأرض ويجاء بكم حفاة عراة غرلا فيكون أول من يكسى إبراهيم يقول الله تعالى : اكسوا خليلي بريطتين بيضاوين من رياط الجنة ثم أكسى على أثره ثم أقوم عن يمين الله مقاما يغبطني الأولون والآخرون " . رواه الدارمي
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مقام محمود اور اس کی اہمیت وخصوصیت ) کیا ہے ؟ جس کا اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17۔ الاسراء : 79) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس دن ( کہ جب مجھے یہ مقام محمود عطا ہوگا ) اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر نزول جلال فرمائے گا اور وہ کرسی چرچرائے گی جیسا کہ نئے چمڑے کی تنگ زین چرچراتی ہے اور اس کرسی کی کشادگی ووسعت اتنی ہے جتنی کہ زمین وآسمان کی درمیانی فضا ، پھر تم سب کو برہنہ پاؤ ننگے بدن اور بے ختنہ ( میدان حشر ) میں لایا جائے گا اور اس دن سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ( فرشتوں کو ) حکم دے گا کہ میرے دوست کو لباس پہناؤ ، اور جنت کی چادروں میں سے ملائم کتان کی دو سفید چادریں لا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہنائی جائیں گی ، ان کے بعد مجھ کو لباس پہنایا جائے گا اور پھر میں اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا اور ( یہ اعزاز ملنے پر ) اگلے پچھلے تمام لوگ مجھ پر رشک کریں کریں ۔ " (دارمی )
تشریح :
اس حدیث میں " پرودگار کی کرسی " کی کشادگی و وسعت کو بیان کرنے کے لئے زمین وآسمان کی درمیانی فضا کی مثال دی گئی ہے جب کہ ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ " (وسعت وکشادگی میں ) اس کرسی کے مقابلہ پر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کی مجموعی حیثیت بس اتنی ہی ہے جتنی کہ کسی بہت بڑے جنگل وبیابان میں پڑے ہوئے ایک چھوٹے سے چھلے کی ، اور اس کرسی کے مقابلہ پر عرش کی وہی حیثیت ہے جو اس چھلے کے مقابلہ پر پورے جنگل و بیابان کی !" پس اس حدیث میں کرسی کی جو وسعت وکشادگی بیان کی گئی ہے وہ بطریق تعین وتحدید نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کے ذہن وفہم کے مطابق محض تمثیل کے طور پر ہے جیسا کہ جنت کی وسعت وکشادگی بیان کی گئی ہے وہ بطریق تعین وتحدید نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کے ذہن وفہم کے مطابق محض تمثیل کے طور پر ہے جیسا کہ جنت کی وسعت وکشادگی کو محض تمثیل کے طور پر بیان کرنے کے لئے یہ فرمایا گیا ہے کہ عرضہا السموت والارض علاوہ ازیں اس وسعت وکشادگی " کو بیان کرنے کا ایک خاص مقصد بھی تھا وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزول و جلال فرمانے کی وجہ سے کرسی اس طرح چرچرائے گی جس طرح نئے چمڑے کی تنگ زین سوار کے نیچے چرچراتی ہے تو اس سے یہ وہم ہو سکتا ہے کہ وہ کرسی تنگ اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے چرچرائے گی ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کرنا ضروری جانا کہ کرسی کے چرچرانے کی بات اور نئے چمڑے کی تنگ زین کی مشاہبت سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ کرسی بھی چھوٹی اور تنگ ہوگی بلکہ وہ کرسی اتنی عظیم اور کشادہ ہے کہ اس کا ہلکا سا اندازہ کرنے کے لئے تم زمین وآسمان کی درمیانی فضا کا تصور کر لو بہرحال یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کے حدیث کے الفاظ ان متشابہات میں سے ہیں جن کے حقیقی معنی ومراد تک انسانی علم وذہن کی رسائی تیقّن کے ساتھ ممکن نہیں لہٰذا مفردات عبادت جیسے کرسی پر حق تعالیٰ کے بیٹھنے ، کرسی کے چرچرانے اور اس کرسی کے زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ بقدر وسیع وکشادہ ہونے وغیرہ کی حقیقی معنی تک پہنچنے کی کوشش کئے بغیر صرف مفہوم حدیث کے خلاصہ کو اختیار کرنا چاہئے جو یہ ہے کہ اس حدیث کے ذریعہ قیامت کے دن حق تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اس کے جاہ و جلال اور اس کی بادشاہت وحاکمیت کا اظہار کرنا مقصود ہے ۔
" اس دن سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے " الحشر کی پہلی فصل کی ایک حدیث میں بھی گزر چکا ہے اور یہ بات بھی وہاں بتائی جا چکی ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت رکہتے ہیں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے لباس پہنائے جانے کا شرف واعزاز بھی اسی وجہ سے حاصل ہوگا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی باپ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کا سلسلہ نسب انہی سے چلتا ہے ! علاوہ ازیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہونے والے اس شرف واعزاز کو زیادہ سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جزوی فضیلت ملنا ہی کہا جا سکتا ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ جزوی فضیلت ، کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوتی جب کہ اس دن بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بالعموم اور علی الاطلاق پوری نوع انسانی بشول تمام پیغمبر و انبیاء سے افضل وبرتر ہونا خود اسی حدیث کے آخری الفاظ ثم اقوم عن یمین اللہ الخ سے ظاہر وثابت ہے ۔
" اس کے بعد مجھ کو لباس پہنایا جائے گا ۔ " یہ ارشاد اس روایت کے منافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنی قبر سے لباس میں اٹھیں گے ! لیکن اگر یہ وضاحت پیش نظر رہے تو پھر دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد معلوم نہیں ہوگا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر سے لباس میں اٹھیں گے لیکن میدان حشر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ دوبارہ لباس پہنایا جائے گا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل وشرف احترام کے اظہار کے لئے ہوگا ۔
حدیث کو آخر تک دیکھنے کے بعد ایک بڑا سوال ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے جانے والے سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دئیے جانے والے جواب کے درمیان مطابقت وموزونیت کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوچھنے والوں نے مقام محمود کے بارے میں پوچھا تھا کہ اس کی نوعیت وصورت کیا ہوگی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب براہ راست نہیں دیا بلکہ پہلے اس دن کے پرہیبت اور پر حول ماحول کا ذکر کیا تاکہ لوگوں کے ذہن میں اس چیز کی بڑائی اور اہمیت راسخ ہو جائے جس کے بارے میں انہوں نے سوال کیا ہے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ ثم اقوم عن یمین اللہ الخ ( پھر میں اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا الخ ) کے ذریعہ ان کے سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالواسطہ طور پر یہ جواب دیا کہ " مقام محمود " وہ جگہ ہے جہاں میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا اور وہ سب سے بڑا شرف واعزاز ہوگا جو میرے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوگا ، اور الاول تا آخر پوری کائنات مجھے عطا ہونے والے اس شرف واعزاز پر رشک کرے گی ۔ پس یہ ارشاد گرامی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات حتی کہ انبیاء علیہم السلام رسول اور تمام مقربین پر فضیلت رکھتے ہیں ۔