قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہاں کہاں ملیں گے
راوی:
وعن أنس قا ل سألت النبي صلى الله عليه و سلم أن يشفع لي يوم القيامة فقال : " أنا فاعل " . قلت يا رسول الله فأين أطلبك ؟ قال اطلبني أول ما تطلبني على الصراط " . قلت فإن لم ألقك على الصراط ؟ قال : " فاطلبني عند الميزان " قلت فإن لم ألقك عند الميزان ؟ قال : " فاطلبني عند الحوض فإني لا أخطىء هذه الثلاث المواطن " رواه الترمذي وقا لهذا حديث غريب
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ( عام شفاعت کے علاوہ خاص طور پر الگ سے بھی ، میری شفاعت فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اچھا شفاعت کردوں گا ۔ " میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں تلاش کروں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہاں ملیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !" سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا " میں نے عرض کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پل صراط پر نہ مل پائیں ؟ فرمایا ! تو پھر میزان کے پاس تلاش کرنا ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میزان کے پاس بھی نہ ملیں ؟ فرمایا ! (اگر ان دونوں جگہ پر نہ مل پاؤں ) تو پھر حوض پر مجھے تلاش کرنا میں ان تینوں جگہوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا ۔ " اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ "
تشریح :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ قیامت کے دن یہ تین موقعے اور یہ تین مقام ایسے ہوں گے جہاں لوگوں کو بہت زیادہ پریشانی اور ہولناکی سے دوچار ہونا پڑے گا اور یہی وہ مقام ہوں گے جہاں پیش آنے والے حالات ومعاملات ، سفارش وشفاعت کے طلب گارہوں گے ، پس میں ان تینوں جگہوں پر باری باری موجود رہوں گا ، کبھی یہاں کبھی وہاں اور اس طرح میں اس دن انہیں مقامات پر لوگوں کی دیکھ بھال رکھنے اور ان کے معاملات نمٹوانے میں مصروف رہوں گا ۔
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ یہ حدیث بظاہر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس حدیث کے خلاف ہے جو باب الحساب کی دوسری فصل میں گزری ہے اور جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنے اہل وعیال کو یاد رکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن ان تینوں موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث " غائبین " پر محمول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ان تینوں موقعوں جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی رابطہ قائم نہیں کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم از خود ان کو یاد نہیں کریں گے ، اور یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث " حاضرین " پر محمول ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں جو لوگ ان موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر حاضر ہوں گے اور اپنی طرف متوجہ کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف توجہ دیں گے اور ان کی خصوصی شفاعت فرمائیں گے ۔ اور علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مذکورہ جواب اس لئے دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں ، اور یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ مخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور خصوصی توجہ پر اعتماد و بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائے اور عمل وریاضت کی طرف سے بے فکر ہو جائیں ! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت اور قرابتداروں سے یہی فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو ! میں تمہارے اخروی معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوں محض میرے اوپر اعتماد کر کے نہ بیٹھ جانا ، آخرت میں تمہارا عمل ہی فائدہ پہنچائے گا ، اس کے برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ جواب اس لئے دیا کہ وہ نا امید نہ ہو جائیں اور انہوں نے جس قلبی تعلق واخلاص کی بنا پر یہ درخواست کی تھی اس کا تقاضہ یہی تھا کہ انہیں جواب بھی اس طرح کے محبت و تعلق کو ظاہر کرنے والا دیا جائے ۔ بہر حال یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ دن اپنی ہولناکی ، شدت وسختی اور زحمت ومشقت کے اعتبار سے نہایت سخت ہوگا ، اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کا مقام حاصل ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا برحق ہے لیکن اس دن نجات پانے کے لئے اس دنیا میں عملی زندگی کو سوار نے اور درست کرنے کی ضرورت بھی مسلم ہے ، محض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر اعتماد کافی نہیں اور صرف اعمال پر اعتماد کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بے نیازی کوئی معنی نہیں رکھتی ، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو الگ الگ جواب دئیے وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح تھے اور ہر جواب میں مخاطب کے حال کی رعایت ملحوظ تھی ۔