دوزخیوں کی نجات کا ذکر
راوی:
وعن أبي هريرة أن الناس قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة ؟ فذكر معنى حديث أبي سعيد غير كشف الساق وقال : " يضرب الصراط بين ظهراني جهنم فأكون أول من يجوز من الرسل بأمته ولا يتكلم يومئذ الرسل وكلام الرسل يومئذ : اللهم سلم سلم . وفي جهنم كلاليب مثل شوك السعدان ولا يعلم قدر عظمها إلا الله تخطف الناس بأعمالهم فمنهم من يوبق بعمله ومنهم من يخردل ثم ينجو حتى إذا فرغ الله من القضاء بين عباده وأراد أن يخرج من النار من أراد أن يخرجه ممن كان يشهد أن لا إله إلا الله أمر الملائكة أن يخرجوا من يعبد الله فيخرجونهم ويعرفونهم بآثار السجود وحرم الله تعالى على النار أن تأكل أثر السجود فكل ابن آدم تأكله النار إلا أثر السجود فيخرجون من النار قد امتحشوا فيصب عليهم ماء الحياة فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل ويبقى رجل بين الجنة والنار وهو آخر أهل النار دخولا الجنة مقبل بوجهه قبل النار فيقول : يا رب اصرف وجهي عن النار فإنه قد قشبني ريحها وأحرقني ذكاؤها . فيقول : هل عسيت إن أفعل ذلك أن تسأل غير ذلك ؟ فيقول : ولا وعزتك فيعطي الله ما شاء الله من عهد وميثاق فيصرف الله وجهه عن النار فإذا أقبل به على الجنة ورأى بهجتها سكت ما شاء الله أن يسكت ثم قال : يا رب قدمني عند باب الجنة فيقول الله تبارك وتعالى : اليس أعطيت العهود والميثاق أن لا تسأل غير الذي كنت سألت . فيقول : يا رب لا أكون أشقى خلقك . فيقول : فما عسيت إن أعطيت ذلك أن تسأل غيره . فيقول : لا وعزتك لا أسألك غير ذلك فيعطي ربه ما شاء من عهد وميثاق فيقدمه إلى باب الجنة فإذا بلغ بابها فرأى زهرتها وما فيها من النضرة والسرور فسكت ما شاء الله أن يسكت فيقول : يا رب أدخلني الجنة فيقول الله تبارك وتعالى : ويلك يا ابن آدم ما أغدرك أليس قد أعطيت العهود والميثاق أن لا تسأل غير الذي أعطيت . فيقول : يا رب لا تجعلني أشقى خلقك فلا يزال يدعو حتى يضحك الله منه فإذا ضحك أذن له في دخول الجنة . فيقول : تمن فيتمنى حتى إذا انقطعت أمنيته قال الله تعالى : تمن من كذا وكذا أقبل يذكره ربه حتى إذا انتهت به الأماني قال الله : لك ذلك ومثله معه "
وفي رواية أبي سعيد : " قال الله : لك ذلك وعشرة أمثاله " . متفق عليه
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مضمون کے اعتبار سے وہی حدیث بیان کی جو پیچھے حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی گئی ہے ( گو دونوں روایتوں میں الفاظ کا اختلاف ہے ) ہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے " پنڈلی کھلنے ) کا ذکر نہیں کیا ، اور پھر کہا ہے کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) جب دوزخ کے اوپر پل صراط کھڑا کیا جائے تو تمام رسولوں میں اس پل کے اوپر سے اپنی امت کے ساتھ گزرنے والا سب سے پہلا رسول میں ہوں گا اور اس وقت ( رسولوں کے علاوہ ) کوئی بھی شخص زبان سے بات نکالنے کی جرأت نہیں کرے گا اور رسول بھی صرف اتنا کہیں گے کہ اے اللہ ! سلامتی کے ساتھ نیز ( اس پل کے دونوں طرف جہنم میں سعدان کے کانٹوں جیسے آنکڑے ہوں گے ، ان آنکڑوں کی لمبائی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ، وہ آنکڑے لوگوں کو ان کے برے اعمال کے سبب اچک لیں گے ، پس ان لوگوں میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو اپنے اعمال کی پاداش میں ہلاک ہوں گے ( یعنی دوزخ میں جا گریں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا رہیں گے جیسے کافر ) اور بعض وہ ہونگے جو ( ان آنکڑوں کی گرفت کی وجہ سے پاش پاش ہو جائیں گے لیکن پھر نجات پاجائینگے ( یعنی آنکڑوں کے اچکنے کی وجہ سے ان کے جسم کا گوشت جگہ جگہ سے کٹ جائے گا اور پورا بدن بری طرح زخمی ہو جائے گا اور پھر وہ اسی حالت میں کسی نہ کسی طرح پل کو پار کر ہی لیں گے یا اگر دوزخ میں جا گریں گے تو وہاں کچھ عرصہ تک اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پا جائیں گے پس یہ گناہ گار وفاسق مسلمانوں کا حال بیان کیا گیا ہے ) پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا ( کہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے جو جنت کا مستحق ہوگا اس کو جنت میں بھیج دیا جائے گا اور جو دوزخ کا مستوجب ہوگا اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ) اور یہ ارادہ کرے گا کہ جن لوگوں نے لا الہ الا اللہ ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی گواہی دی ہے ان میں سے جن کو وہ چاہے دووزخ سے نکال لے تو فرشتوں کو حکم دے گا ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے جو اللہ تعالیٰ کو معبود مانتے تھے ( اور اس کے علاوہ کسی اور کی معبودیت پر ایمان نہیں رکھتے تھے ) چنانچہ فرشتے ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے اور ان کی پیشانیوں پر سجدہ کے نشانات کے ذریعہ ان کو شناخت کرینگے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھالے اس لئے دوزخ سے اس حالت میں باہر لائے جائیں گے کہ وہ آگ میں جل کر سیاہ ہو چکے ہوں گے ، پس ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا اور وہ ( اس وقت ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہوگا کہ ) ایک شخص جو دوزخیوں میں سے جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہوگا ، جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا رکھا جائے گا اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا ، وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! ( بس اتنا کرم کر دے کہ ) میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے ، دوزخ کی آگ کی بدبو نے مجھے سخت اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کے شعلوں کی تیزی وگرمی مجھے بھسم کئے دے رہی ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں ایسا کر دوں ( یعنی تیرا منہ دوزخ کی طرف پھیر دوں ) تو ہو سکتا ہے کہ تو پھر کچھ اور مانگنے لگے ۔ وہ شخص عرض کرے گا کہ تمہیں ، تیری عزت کی قسم میں اور کچھ نہیں مانگوں گا پھر وہ کچھ اور عہد و پیمان کرے گا جو اللہ تعالیٰ چاہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا ، مگر جب اس کا منہ ( دوزخ کی طرف سے جنت کی طرف پھیر دے گا ، اور وہ جنت کی زیبائش وآرائش اور تروتازگی دیکھے گا تو ( پہلے تو ) اس وقت تک خاموش (کھڑا دیکھتا ) رہے گا جب تک اللہ چاہے گا اور پھر عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! مجھے جنت کے دروازہ تک پہنچا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے یہ عہدوپیمان نہیں کیا تھا کہ تو اپنی اس درخواست کے علاوہ ( کہ میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دیجئے ، کوئی درخواست پیش نہیں کرے گا وہ گڑگڑائے گا کہ میرے پروردگار ! تو مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بد نصیب نہ بنا ( کہ تیری یہ ساری مخلوق تو جنت کے اند رہے اور میں اتنا حرماں نصیب ہوں کہ جنت کے دروازہ تک نہ پہنچ سکوں ، مگر جب وہ جنت کے دروازہ تک پہنچے گا اور جنت کی چمک دمک اور اس کے اندر کی چیزوں ( جیسے عالیشان محلات ، عیش وعشرت کے اسباب ، حوروغلمان اور جوت میں رہنے والوں ) کے ٹھاٹ باٹ دیکھے گا تو پہلے اس وقت تک خاموش (کھڑا دیکھتا ) رہے گا ، جب تک اللہ چاہے گا ، اور پھر عرض ، کرے گا کہ میرے پروردگار ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دیجئے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، ابن آدم ! افسوس تو کس قدر عہد شکن اور وعدہ فراموش ہے ؟ کیا تو نے عہدوپیمان نہیں کیا تھا کہ تو اپنی اس درخواست کے علاوہ جو تیری خواہش کے مطابق منظور کرلی گئی تھی ، کوئی اور درخواست پیش نہیں کرے گا ۔ وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! ( بے شک میں نے عہدوپیمان کیا تھا لیکن جب میں نے تیری شان عفو اور تیری بیکراں رحمت کی طرف دیکھا اور اس بات پر غور کیا کہ خود تو نے اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے (لا تایئسوا من رحمۃ اللہ الخ) تو مجھے معلوم ہوا کہ میں ان کافروں کی طرح نہیں ہوں جو تیری رحمت سے نا امید ہوگئے ہیں، میں تیرے کرم اور تیری وسعت رحمت سے ہر لمحہ امید رکھنے والا ہوں ، پس تیرا دامن رحمت تھام کر عرض کرتا ہوں کہ ) مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ بنا غرضیکہ وہ اسی طرح ' گڑگڑاتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ( اس کی گڑگڑا ہٹ اور طلب صادق دیکھ کر ) اس سے راضی ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ جب راضی ہو جائے گا تو اس کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دے گا ، پھر فرمائے گا کہ تو اور جو کچھ آرزو اور خواہش رکھتا ہو تو اس کو ظاہر کر اور جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ لے چنانچہ وہ ( دل کھول کر ) اپنی آرزوئیں بیان کرے گا اور جب اپنی آخری سے آخری آرزو بھی پوری کرالے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ( ارے نادان ) فلاں فلاں چیز کی بھی خواہش کیوں نہیں ظاہر کرتا ! گویا پروردگار اس کو یاد دلانا چاہے گا کہ تو نے فلاں فلاں چیز تو مانگی ہی نہیں ، ان چیزوں کو بھی مانگ لے ، میں آج تجھے ہر چیز عطا کروں گا یہاں تک کہ جب وہ آرزوئیں بھی پوری ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہ صرف یہ تمام چیزیں ( جو تیری خواہش پر تجھے عطا ہوئی ہیں ) تیرے لئے ہیں بلکہ ( ازراہ تفصیل ) ان ہی جیسی مزید نعمتیں تجھے عطا کی جاتی ہیں ، اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا " نہ صرف یہ تمام چیزیں تیرے لئے ہیں بلکہ ان کے ساتھ دس گناہ اور نعمتیں تجھے عطا کی جاتی ہیں ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
" مگر سجدوں کے نشان کو نہیں کھا جائے گی ۔ " کے ضمن میں علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دوزخ کی آگ جسم کے ان اعضاء کو نہیں جلائے گی جن سے سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ جسم کے سات حصے ہیں ، یعنی پیشانی ، دونوں ہاتھ ، دونوں زانوں اور دونوں پاؤں ، جب کہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ " مگر سجدوں کے نشان کو نہیں کھائے گی ۔ " صرف پیشانی نہ جلایا جانا ہے لیکن علماء نے علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کو زیاد پسند کیا ہے ۔
" چنانچہ ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا ۔" یہ بات بظاہر پچھلی حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو نہر حیات میں ڈالا جائے گا لیکن حقیقت میں ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ، ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو نہر حیات میں غوطہ دلوایا جائے گا اور کچھ لوگوں پر اس نہر کا پانی چھڑکنا ہی کافی قرار دیا جائے گا ۔
" تیری عزت کی قسم میں کچھ نہیں مانگوں گا ۔ " اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جب اپنی قسم اور اپنے عہد وپیمان کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر قسم وعہد توڑ نے کا عتاب کیوں نہیں ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس شخص کا حال ایک مجنون اور از خود رفتہ شخص کا سا ہوگا اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص " معذور " سمجھا جاتا ہے ، یا یہ کہ بات جس جگہ سے تعلق رکھتی ہے وہ ایک ایسی جگہ ( یعنی آخرت ) ہے جہاں کے کسی عمل کا کوئی شخص مکلف نہیں ہوگا ، پس اس سے مواخذہ کس بنا پر کیا جائے گا ۔