حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کرنے کا وعدہ اللہ وندی
راوی:
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه و سلم تلا قول الله تعالى في إبراهيم : [ رب إنهن أضللن كثيرا من الناس فمن تبعني فإنه مني ] وقال عيسى : [ إن تعذبهم فإنهم عبادك ] فرفع يديه فقال " اللهم أمتي أمتي " . وبكى فقال الله تعالى : " يا جبريل اذهب إلى محمد وربك أعلم فسله ما يبكيه ؟ " . فأتاه جبريل فسأله فأخبره رسول الله صلى الله عليه و سلم بما قال فقال الله لجبريل اذهب إلى محمد فقل : إنا سنرضيك في أمتك ولا نسوؤك " . رواه مسلم
" اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی مجلس میں لوگوں کے سامنے ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں (یہ بیان کرنے کے لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنی امت کے متعلق بارگاہ رب ذوالجلال میں کیا عرض کریں گے ) یہ آیت پڑھی ، (رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّه مِنِّىْ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 14۔ ابراہیم : 36) اور پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے کہ میرے پروردگار ! یہ بت بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہیں ، پس ان لوگوں میں سے جنہوں نے میری اطاعت قبول کی ہے ، یعنی تو حید ، اخلاص اور توکل کو اختیار کیا وہ میرے اپنے اور میرے تابعدار ہیں اور جنہوں نے میری نافرمانی کی ہے تو ، تو معاف کرنے والا رحیم ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسی سلسلہ میں ) حضرت عیسی علیہ السلام کے تعلق سے یہ آیت پڑھی ( جس میں یہ بیان ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں پروردگار سے کیا عرض کریں گے ) (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ) 5۔ المائدہ : 118) ( اور آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے " اگر تو ان کو عذاب میں مبتلا کرے تو بہرحال وہ تیرے ہی بندے ہیں " یعنی تو ان کا مطلق مالک ہے وہ تیرے حکم کے خلاف کر ہی کیا سکتے ہیں اور ان کو عذاب میں مبتلا کرنے سے تجھے کون روک سکتا ہے ۔ " اگر تو ان کو بخش دے تو بے شک تو غالب حکمت والا ہے ۔ " یعنی تجھ پر کوئی غالب نہیں ہے، تو جو چاہے حکم کر سکتا ہے ، کوئی بھی تیرے حکم کو پس پشت ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر یہ کہ تیری حکمت ودانائی میں بھی ذرہ برابر شبہ نہیں ، تو ہر ایک کے بارے میں وہی حکم کرتا ہے جس کا وہ مستحق ومستوجب ہوتا ہے اور ہر چیز کو وہی جگہ دیتا ہے جہاں کا وہ سزاوار ہے ) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ پرودگار میری امت کو بخش دے ، میری امت پر رحم فرما اور ( یہ دعا کرتے ہوئے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے ۔ ( فورا ) اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ، اور حالانکہ اے جبرائیل تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے ( اس کو کچھ مطلق دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ) مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی اور پروردگار کی عنایت وتوجہ کے اظہار کی خاطر ) ان سے پوچھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں روتے ہیں ( یہ حکم سنتے ہی ) حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رونے کا سبب پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپنے الفاظ میں انہیں بتادیا ( کہ اپنی امت کے بارے میں خوف الٰہی نے مجھ پر رقت طاری کر دی ہے ) پھر (حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ کبریائی میں واپس گئے اور صورت حال عرض کی اور تب ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ ( جب وقت آئے گا تو ) ہم یقینًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں راضی وخوش کردینگے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز رنجیدہ نہیں ہونے دیں گے ۔ " ( مسلم )
تشریح :
" ( یہ دعا کرتے ہوئے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے ۔ " یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اپنی امت کے حق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی شفاعت کو یاد کیا اور اس کا ذکر کیا تو پھر فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی امت کا خیال آگیا ، اور اس خوف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی کہ نا معلوم میری امت کے لوگوں کا کیا حشر ہوگا کہیں ان کو تو عذاب الٰہی میں مبتلا نہیں کیا جائے گا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں اپنی امت کی بخشش ومغفرت کی دعا فرمائی ۔
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں راضی وخوش کر دیں گے ۔ " اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی وخوش کس صورت میں ہوں گے ، اس کے متعلق روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" میں اس وقت تک راضی وخوش نہیں ہونگا جب تک اللہ تعالیٰ میری امت کے ایک ایک فرد کو بخش نہیں دے گا ۔ " سبحان اللہ اس امت کے لئے اس سے بڑی سعادت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے ، ضرورت صرف یہ ہے کہ حقیقی معنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان کے عقیدے کو ہر حالت میں درست رکھا جائے ، مشکل جو ہے صرف یہی ہے اور کچھ نہیں ۔
خاک اوپاش بادشاہی کن آن او پاش ہر چہ خواہی کن
اس حدیث سے کئی اہم باتیں ظاہر ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت سے کس درجہ کا تعلق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر کتنے زیادہ شفیق ومہربان ہیں ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لوگوں کی صلاح وفلاح کی طرف کس طرح ہر وقت متوجہ رہتے تھے ، دوسری اور سب سے بڑی بات اس امت مرحومہ کے لئے بشارت عظمی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں راضی وخوش کر دیں گے ، اور تیسری بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم المرتبیت ظاہر ہونا ہے ۔