حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا ذکر
راوی:
وعنه قال أتى النبي صلى الله عليه و سلم بلحم فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه فنهس منها نهسة ثم قال : " أنا سيد الناس يوم القيامة يوم يقوم الناس لرب العالمين وتدنو الشمس فيبلغ من الغم والكرب ما لا يطيقون فيقول الناس ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم ؟ فيأتون آدم " . وذكر حديث الشفاعة وقال : " فأنطلق فآتي تحت العرش فأقع ساجدا لربي ثم يفتح الله علي من محامده وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه على أحد قبلي ثم قال يا محمد
ارفع رأسك وسل تعطه واشفع تشفع فأرفع رأسي فأقول أمتي يارب أمتي يارب فيقال يا محمد أدخل من أمتك من لا حساب عليهم من الباب الأيمن من أبواب الجنة وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الأبواب " . ثم قال : " والذي نفسي بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة كما بين مكة وهجر " . متفق عليه
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( پکا ہوا ) گوشت لایا گیا اس میں سے دست کا گوشت آپ کو پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند اور مرعوب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا ، اور پھر فرمانے لگے کہ " میں قیامت کے دن ، جب کہ لوگ دوجہان کے پروردگار کا فیصلہ سننے کے انتظار میں کھڑے ہوں گے ، تمام لوگوں کا سردار ہوں گا ، اس دن سورج ( لوگوں کے سروں کے ) بہت قریب ہوگا اور لوگوں کی حالت ( مسلسل کھڑے رہنے ، گرمی کی تپش وسختی اور وہاں کے ہولناک ماحول کے اثر سے ) اس قدر کربناک اور غم وفکر سے بوجھل ہوگی کہ وہ ہمت ہار بیٹھیں گے ، یعنی صبر واستقامت پر قادر نہیں ہوں گے اور نہایت حیرانی وپریشانی کے عالم میں ) ایک دوسرے سے کہتے پھریں گے کہ آخر تم کسی ایسے شخص کی تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے پروردگار سے تمہاری سفارش کردے ( اور وہ تمہیں اس کرب واذیت کی حالت سے نجات عطا کر دے ) چنانچہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے ۔ " اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت کے سلسلے میں حدیث کے ( وہی ) اجزاء بیان کئے ( جو پہلے ایک حدیث میں بیان ہو چکے ہیں ، کہ لوگ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کرام کے پاس جا کر شفاعت کی درخواست کریں گے اور وہ سب جواب دیں گے کہ ہم اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے اور پھر وہ لوگ شفاعت کی درخواست لے کر میرے پاس آئیں گے یہ ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پس میں لوگوں کے پاس سے روانہ ہوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور وہاں ( بارگاہ رب العزت میں ) اپنے پرودگار کے سامنے سجدہ میں گر پڑوں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور بہترین ثناء کے وہ الفاظ و اسلوب منکشف کر دے گا جو مجھ سے پہلے اس نے کسی پر منکشف نہیں کئے ہوں گے (یعنی اس موقع کے لئے میرے دل میں اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ اور کورنش وآداب حضوری کے وہ طریقہ القاء فرمائے گا جو اس نے مجھ سے پہلے کسی اور کو القاء نہیں کئے ہوں گے بلکہ اس وقت سے پہلے مجھ کو ان کا کوئی علم نہیں ہوگا ، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا چکا ہے پھر پروردگار فرمائے گا محمد ! اپنا سر اٹھاؤ ، جو چاہتے ہو مانگوں میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو تو کرو میں قبول کروں گا ( یہ سن کر ) میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا کہ میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے ، تب کہا جائے گا کہ اے محمد ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن سے حساب نہیں لیا جائے گا ( اور جو حساب کے بغیر جنت کے مستحق ہیں ) جنت کے دائیں طرف کے دروازہ سے جنت میں داخل کر دیجئے اور وہ لوگ اس دروازہ کے علاوہ دوسرے ( اطراف کے ، دروازوں کے استعمال کے حق میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " قسم ہے اس ذات کی جس کی دست قدرت میں میری جان ہے ، جنت کے دروازوں میں سے ہر ایک دروازہ کے دونوں کواڑوں کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر کے درمیان ہے " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
" میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا ۔ " میں " لوگوں کا اطلاق پوری نوع انسانی پر ہے جس میں انبیاء کرام بھی شامل ہیں ! اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انا سید ولد ادم یوم القیامۃ الخ یعنی قیامت کے دن میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا ! اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتبار سے ارشاد فرمائی کہ اس تو قیر وعزت کی بنا پر کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہ الٰہی میں سب سے زیادہ قرب ومحبوبیت کی وجہ سے حاصل ہوگی، اس دن ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا محتاج ہوگا ، جب سب لوگ نہایت مضطرب وپریشان ہوں گے تو آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر آئیں گے اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کی شفاعت کا حوصلہ کریں گے ۔
" عرش الہٰی کے نیچے آؤں گا ۔ " یہ جملہ پیچھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی جانے والی اس حدیث کے خلاف ہے جس میں " اپنے پروردگار کے گھر میں آنے " ، کے الفاظ ہیں ، پس ان دونوں کے درمیان تطبیق یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کا گھر جنت ہے اور جنت عرش الہٰی کے نیچے ہی ہے ، لہٰذا دونوں حدیثوں کے الفاظ میں مفہوم کے اعتبار سے کوئی تعارض نہیں ہے ۔
میرے پروردگامیری امت کو بخش دیجئے ۔ " ان الفاظ کو تین بار کہنا یا تو اپنی عرض کو زیادہ سے زیادہ اہم اور قابل توجہ بنا کر پیش کرنے کے لئے ہوگا جیسا کہ جب کوئی شخص اپنے حاکم وآقا کے کسی اہم مقصد کی بارآوری چاہتا ہے تو وہ اپنی عرض کو اس کے سامنے بار بار دہراتا ہے یا ان الفاظ کو بار بار دہرانے سے گناہگاروں کے طبقوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوگا ، جیسا کہ پیچھے گزرنے والی حدیث میں بیان ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دفع کی شفاعت کسی ایک طبقہ کے ساتھ مختص ہوگی اور پھر دوسری مرتبہ کی شفاعت کسی دوسرے طبقہ کے ساتھ، اور اس طرح متعدد دفعوں میں سب کی شفاعت پوری ہوگی ۔
جنت کے دائیں طرف کے دروازے سے ۔۔ الخ۔ یعنی ان لوگوں کے اعزاز وتکریم کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ازراہ عنایت جنت کے دائیں طرف کا دروازہ انہی لوگوں کے لئے مخصوص ، ہوگا ، ان کے علاوہ کسی اور کو اس دروازہ سے داخلہ کی اجازت نہیں ہوگی ، اس دروازہ کے علاوہ باقی اور جو تمام دروازے ہوں گے وہ دوسرے سب لوگوں کے لئے مشترک ہوں گے اور مذکورہ لوگ بھی ان دروازوں کو استعمال کرنے کا حق رکھیں گے ۔
ہجر ایک جگہ کا نام ہے جو جزیرہ نما عرب کے مشرقی ساحل پر ( سعودی عرب کے ) اس علاقہ میں واقعہ ہے جس کو اب " احساد " کہا جاتا ہے اور پہلے زمانہ میں " بحرین " اسی علاقہ کو کہتے تھے ۔ بہر حال اس جملہ کا مقصود جنت کے دروازوں کی چوڑائی اور وسعت کو بیان کرنا ہے کہ جنت کے ہر دروازے کی چوڑائی اس فاصلہ کے بقدر ہے جو مکہ اور ہجر کے درمیان ہے ، لیکن اس سے مراد تحدید وتعبین ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تخمی نافرمایا گیا ہے تاکہ دروازے کی چوڑائی ووسعت کا اندازہ ہو جائے حہاں تک حقیقت حال کا تعلق ہے وہ کچھ اور ہی ہے ۔