مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 146

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم في بعض فيأتون آدم فيقولون اشفع لنا إلى ربك فيقول لست لها ولكن عليكم بابراهيم فإنه خليل الرحمن فيأتون إبراهيم فيقول لست لها ولكن عليكم بموسى فإنه كليم الله فيأتون موسى فيقول لست لها ولكن عليكم بعيسى فإنه روح الله وكلمته فيأتون عيسى فيقول لست لها ولكن عليكم بمحمد فيأتوني فأقول أنا لها فأستأذن على ربي فيؤذن لي ويلهمني محامد أحمده بها لا تحضرني الآن فأحمده بتلك المحامد وأخر له ساجدا فيقال يا محمد ارفع رأسك وقل تسمع وسل تعطه واشفع تشفع فأقول يارب أمتي أمتي فيقال انطلق فأخرج من كان في قلبه مثقال شعيرة من إيمان فأنطلق فأفعل ثم أعود فأحمده بتلك المحامدوأخر له ساجدا فيقال يا محمد ارفع رأسك وقل تسمع وسل تعطه واشفع تشفع فأقول يارب أمتي أمتي فيقال انطلق فأخرج من كان في قلبه مثقال ذرة أو خردلة من إيمان فأنطلق فأفعل ثم أعود فأحمده بتلك المحامدوأخر له ساجدا فيقال يا محمد ارفع رأسك وقل تسمع وسل تعطه واشفع تشفع فأقول يارب أمتي أمتي فيقال انطلق فأخرج من كان في قلبه أدنى أدنى أدنى مثقال حبة من خردلة من إيمان فأخرجه من النار فأنطلق فأفعل ثم أعود الرابعة فأحمده بتلك المحامدوأخر له ساجدا فيقال يا محمد ارفع رأسك وقل تسمع وسل تعطه واشفع تشفع فأقول يارب ائذن لي فيمن قال لا إله إلا الله قال ليس ذلك لك ولكن وعزتي وجلالي وكبريائي وعظمتي لأخرجن منها من قال لا إله إلا الله . متفق عليه

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جب قیامت کا دن ہوگا تو (میدان حشر میں ) لوگ ایک دوسرے کے ساتھ عجب اضطراب افراتفری کی حالت میں ہوں گے (یعنی وہاں کی سختی وتنگی اور ہولناکی سے بیتاب ہو کر ادھر ادھر بھاگے پھریں گے اور آپس میں صلاح ومشورہ کریں گے کہ اس ہولناکی سے چھٹکارے کی کیا راہ نکالی جائے ) چنانچہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ آپ علیہ السلام اپنے پروردگار سے شفاعت کر دیئجے ( کہ وہ ہمارے حساب وکتاب کا حکم جاری فرما دے اور ہمیں اجرو ثواب یا عذاب دے کر ہمارے معاملہ ایک طرف کرے ) حضرت آدم علیہ السلام جواب دیئے گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں ، البتہ تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے دوست ہیں ( اور تمہاری شفاعت کر سکتے ہیں ) وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہیں جواب دیں گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں ، البتہ تم لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے کلیم ہیں ( اور تمہاری شفاعت کر سکتے ہیں ) وہ لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور حضرت موسی علیہ السلام بھی یہی جواب دیں گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں ، البتہ تم لوگوں کو عیسی علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے جو اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ( اور تمہاری شفاعت کر سکتے ہیں ) وہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی یہی جواب دیں گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں اور تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہئے ( وہی تمہاری شفاعت کر سکتے ہیں ) ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تب لوگ میرے پاس آئیں گے ( اور مجھ سے شفاعت کی درخواست کریں گے ) میں ان سے کہوں گا کہ ہاں بے شک میں شفاعت کا اہل ہوں ( کہ یہ کام میں ہی کر سکتا ہوں ، کسی اور کے بس میں کا نہیں ہے پھر میں بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور ( اس کے ساتھ ہی ) اللہ تعالیٰ میرے دل میں اپنی حمد وثنا کے الفاظ ڈالے گا جس کے ذریعہ ( اس وقت ) میں اس کی حمد وثنا کروں گا اور وہ حمد وثنا ( کن الفاظ اور کس اسلوب میں ہوگی اس وقت مجھے معلوم نہیں ہے ، بہر حال ( جب میں اس کی بارگاہ میں پیش ہوں گا اور اس کو دیکھوں گا تو ) سجدہ میں گر پڑوں گا اور اس کی وہی حمد وثنا بیان کروں گا ، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ محمد ! اپنا سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، جو مانگنا چاہتے ہو مانگو میں دونگا ، اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا ۔ میں ( سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد یا سجدہ ہی میں ) عرض کروں گا کہ میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے ، میری امت پر رحم فرمائیے ( یا یہ مطلب ہے کہ میرے پروردگار میں اپنی امت کے بارے میں شفاعت کرتا ہوں ) مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ ہر اس شخص کو ( دوزخ سے ) نکال لو جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے ، پس میں جاؤں گا اور پروردگار کے حکم کے مطابق عمل کروں گا ، اس کے بعد میں پھر بارگاہ رب العزت میں حاضر ہونگا اور انہیں الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوا سجدہ میں گر پڑوں گا پھر مجھ سے کہا جائے گا محمد ! اپنا سر اٹھاؤ کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی جو مانگنا چاہتے ہو مانگو میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا میں عرض کروں گا میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے ، میری امت پر رحم فرمائیے ! مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور ہر اس شخص کو دوزخ سے ) نکال لو جس کے دل میں ذرے یا رائی کے برابر بھی ایمان ہے پس میں جاؤں گا اور پروردگار کے حکم کے مطابق عمل کروں گا ، اس کے بعد پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گا اور انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرتا ہوا سجدہ میں گرپڑوں گا ۔ پھر مجھ سے کہا جائے گأ کہ محمد ! اپنا سر اٹھاؤ جو کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی جو مانگنا چاہتے ہو مانگو میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا میں عرض کروں گا کہ میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے ، میری امت پر رحم فرمائیے مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور ہر اس شخص کو ( دوزخ سے ) نکال لو جس کے دل میں رائی کے ادنی دانہ برابر بھی ایمان ہے ۔ پس میں جاؤں گا اور پروردگار کے حکم کے مطابق عمل کروں گا ۔ اس کے بعد پھر میں چوتھی مرتبہ بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گا اور انہیں الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوا سجدہ میں گر پڑونگا ، پھر مجھ سے پوچھا جائے گا کہ محمد! اپنا سر اٹھاؤ جو کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی جو مانگنا چاہتے ہو مانگوں میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا ۔ میں عرض کروں گا میرے پروردگار (اب ) مجھے اس شخص کی بھی شفاعت کی اجازت مرحمت فرما دیجئے جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو پروردگار فرمائے گا کہ نہیں ، اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اپنے عزت وجلال اور اپنی ذاتی وصفاتی عظمت وبڑائی کی قسم ، اس شخص کو میں خود دوزخ سے نکالوں گا جس نے لاالہ الا اللہ کہا ہوگا ۔ "
(بخاری ومسلم )

تشریح :
" جس کے دل میں جو برابر بھی ایمان ہو ۔ " واضح رہے کہ اس طرح کے جملوں ، یعنی " جس کے دل میں جو برابر یا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر اور یا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر اور یا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو کی توضیح وتاویل میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں اور یہ اختلاف اقوال پر مبنی ہے جو اصل ایمان کی بحث کے سلسلہ میں ان کے درمیان پایا جاتا ہے ، یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے اور کتاب الایمان وغیرہ میں مختلف مواقع پر گزر بھی چکی ہے اس موقع پر صرف اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ مذکورہ جملوں میں جس چیز کو جو یا رائی یا ذرہ کے برابر فرمایا گیا ہے اس سے حقیقی ایمان مراد نہیں ہے بلکہ از قسم خود خیرو بھلائی وہ چیز مراد ہے جو ایمان کے ثمرات ونتائج ، ایقان کی روشنی اور عرفان کے نور سے دل میں پیدا ہوتی ہے ۔ اس چیز پر حقیقت ایمان کا اطلاق اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اصل ایمان جو تصدیق قلبی ( یعنی خاص دل سے ماننے ) اور ایسے ہی قرار لسانی ( زبان سے سچا اقرار کرنے ) کا نام ہے ، ایک ایسا جوہر ہے جس کو اجزاء اور حصوں میں تقسیم ہی نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس پر کسی قسم کی زیادتی کا اجراء ہو سکتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل ایمان ( یعنی نفس تصدیق قلبی اور یقین دلی ، نہ تو گھٹتا ہے اور نہ اس کو کسی مقدار یا حصہ میں بانٹا جا سکتا ہے ۔ پس جو علماء یہ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے اور اس پر کمی وبیشی کا اطلاق ہوسکتا ہے اگر ان کے اس قول کو اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے ایمان کے ثمرات ودرجات میں کمی وزیادتی پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں معلوم ہوگا کہ مذکورہ مسئلہ سے متعلق علماء کے درمیان درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ان کے اختلافی اقوال محض لفظی اختلاف اور صوری نزاع ہے ۔
" جس کے دل میں رائی کے ادنی دانہ کے برابر بھی ایمان ہے ۔" یہ دراصل حق تعالیٰ کی طرف سے انتہائی فضل وکرم کا اظہار ہوگا کہ اس شخص کو بھی دوزخ سے نکال لو جو ادنی سے ادنی درجہ کا مؤمن ہے ۔ " جس نے لاالہ الا اللہ کہا ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں کی بھی شفاعت کرنا چاہتا ہوں جن کے نامہ اعمال میں اس کلمہ طیبہ کے علاوہ اور کوئی بھی نیکی نہیں ہے اور ملا علی قاری کی وضاحت کے مطابق اگرچہ انہوں نے اپنے ایمان کی حالت میں یا ایمان لانے کے بعد اپنی پوری زندگی میں کلمہ طیبہ بھی صرف ایک ہی مرتبہ کیوں نہ زبان سے ادا کیا ہو ! حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری مرتبہ جن لوگوں کی شفاعت کریں گے وہ اس درجہ کے مؤمن ہوں گہ ان کا نامہ اعمال میں کوئی بھی نیکی اور کوئی بھی اچھا کام نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کبھار اپنی زبان سے کلمہ طیبہ ادا کیا ہوگا بلکہ بعض تو ایسے بھی ہوں گے جن کی زبان پر پوری عمر میں صرف ایک ہی مرتبہ یہ کلمہ آیا ہوگا اور ان کے بارے میں یہ شفاعت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امید پر کرنا چاہیں گے کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہنا بھی بہر حال ایک نیکی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی بھی نیکی خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی اور کتنی ہی کم درجہ کی کیوں نہ ہو ، ضائع نہیں جانے دیئے گا بلکہ اول یا آخر اس کا اجر ضرور دے گا ، جیسا کہ ایک حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے کہ من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ( یعنی جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں جائے گا ) طیبی نے کہا ہے کہ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ اس حدیث میں ' جو اور رائی وغیرہ کی مقدار کے برابر " کے ذریعہ جس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے وہ اصل ایمان مراد نہیں ہے جس کو ' ' تصدیق قلبی " سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ اس ایمان کے علاوہ کچھ اور مراد ہے اور وہ کچھ اور " از قسم نیکی وبھلائی وہ چیز ہے جو ایمان کے ثمرہ کے طور پر دل میں پیدا ہوتی ہے ۔
" نہیں اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے الخ کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جس شخص کے نامہ اعمال میں لا الہ الا اللہ کہنے کے علاوہ اور کوئی بھی نیکی ، نہیں ہے اس کو دوزخ سے نکالنے کی شفاعت کا حق بھی گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شوق سے ایسے شخص کی شفاعت بھی کیجئے ہم اس کو قبول کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کو دوزخ سے نکلوانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ نہیں ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ بے شک ہم اس شخص کو بھی دوزخ سے نکالیں گے مگر ایسا ہم آپ کی شفاعت کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ اس وجہ سے کریں گے کہ اپنے فضل وکرم کو ظاہر کرنے کے لئے ہم خود اس کو دوزخ سے نکالنا پسند کرتے ہیں ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مؤمن کے دوزخ سے نکالے جانے کا معاملہ کہ جس نے اپنی پوری عمر میں کوئی نیکی و بھلائی نہیں کی ہے ، شفاعت کے دائرہ سے باہر ہوگا بلکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے متعلق ہوگا ۔ اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ آگے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت اسعد الناس الخ آرہی ہے پھر اس کا کیا مفہوم ہوگا اور مذکورہ مطلب مراد لینے کی صورت میں اس روایت اور اس حدیث کے درمیان تطبیق کیا ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہاں پہلا مطلب مراد لیا جائے تو ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تعارض ہی نہیں رہے گا کیونکہ مذکورہ شخص کو اللہ تعالیٰ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہی کے سبب دوزخ سے نکالے گا اور اگر دوسرا مطلب مراد لیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ یہاں حدیث میں " جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا ہو " سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے نبی پر ایمان تو لائے تھے لیکن کوئی بھی عمل خیر نہ رکھتے اور اپنی بد عملیوں کی بنا پر دوزخ کے مستوجب قرار دے دئیے گیئے ہوں گے اور آگے آنے والی حضرت ابوہررہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے نیک اعمال کو اپنے برے اعمال کے ساتھ اس طرح خلط ملط کیا ہوگا ان کی نیکیاں ہلکی اور برائیاں بھاری پڑگئی ہوں گی اور وہ دوزخ کے مستوجب قرار دے دئیے گئے ہوں گے ۔

یہ حدیث شیئر کریں