مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 131

قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں لوگ تین مرتبہ پیش ہونگے

راوی:

وعن الحسن عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض الناس يوم القيامة ثلاث عرضات فأما عرضتان فجدال ومعاذير وأما العرضة الثالثة فعند ذلك تطير الصحف في الأيدي فآخذ بيمينه وآخذ بشماله . رواه أحمد والترمذي وقال لا يصح هذا الحديث من قبل أن الحسن لم يسمع من أبي هريرة .
وقد
رواه بعضهم عن الحسن عن أبي موسى

" اور حضرت حسن بصری ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن لوگوں کو ( اللہ تعالیٰ کے سامنے ) تین مرتبہ پیش کیا جائے گا اور دو مرتبہ تو بحث وجرح اور عذر آرائی ہوگی اور جب تیسری مرتبہ پیش ہوں گے تو اس وقت ( چونکہ حساب ، کتاب اور پوچھ گچھ کا مرحلہ نمٹ چکا ہوگا اس لئے ) اعمال نامے اڑ اڑاکر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے پس ان میں سے کچھ لوگ ( کہ جو اہل سعادت اور خوش نصیب ہوں گے اپنے دائیں ہاتھوں میں اعمال نامے لیں گے اور کچھ لوگ ( کہ جو اہل شقاوت اور بدبخت ہوں گے ) اپنے بائیں ہاتھوں میں اعمال نامے لیں گے اس روایت کو امام احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ روایت اس اعتبار سے صحیح نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت حسن بصری کا سماع ثابت نہیں ہے بعض محدثین نے اس روایت کو حضرت حسن بصری سے اور انہوں نے ابوموسی اشعری سے نقل کیا ہے ۔ "

تشریح :
" دو مرتبہ تو بحث وجرح اور عذر آرائی ہوگی ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ پہلی مرتبہ پیش ہوں گے تو اس وقت وہ اپنے گناہ ومعصیت اور اپنی بد عملیوں کا اقرار واعتراف نہیں کرینگے اور اپنے آپ کو مستوجب عذاب ہونے سے بچانے کی کوشش کریں گے یعنی حق تعالیٰ کے سامنے بحث ومباحثہ کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تک کسی بھی نبی نے آپ کے احکام نہیں پہنچائے اور نہ کسی نے ہمیں یہ بتایا کہ ہمارا کون سا عمل درست ہے اور کون سا عمل نا درست ! اور جب ہم تک ہدایت پہنچی ہی نہیں اور ہمارے سامنے برائی اور بھلائی کے راستوں کو واضح ہی نہیں کیا گیا تو ہمارے خلاف بدعملیوں اور گناہوں کی فرد جرم کیوں عائد ہو ؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ مختلف دلائل اور گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت فرمادے گا کہ ان تک ہدایت کا پیغام پہنچایا تھا اور مختلف زمانوں میں اس کے پیغمبر اور رسول ان کے پاس اللہ کے احکام پہنچاتے رہے تھے جن کو انہوں نے یا تو قبول نہیں کیا یا ان پر صحیح طرح سے عمل نہیں کیا تو دوسری مرتبہ کی پیشی کے وقت وہ اپنے گناہوں اور اپنی بدعملیوں کا اقرار واعتراف کریں گے اور پھر عذر آرائی کرنے لگیں کے مثلا کوئی تو یوں کہے گا کہ میں نے ازراہ سہو خطاکاروں کا راستہ اختیار کر لیا تھا ، کوئی یوں کہے گا کہ میں جہالت وغفلت کے اندھیروں میں کھو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ہدایت کے راستہ پر نہیں چل سکا ، اور کوئی یوں کہے گا کہ میں تیری رحمت کی امید پر کو تاہ عمل اور غفلت کا شکار ہوگیا تھا ، غرض کہ ہر ایک اسی طرح کے عذر بیان کرے گا ! اور پھر تیسری مرتبہ جب لوگوں کے تمام معاملات منقح ہو کر سامنے آجائیں گے اور ہر ایک کے عقیدہ وعمل کی چھان بین پوری ہو جائے گی تو پھر آخری فیصلہ ظاہر ہو جائے گا اور سب کے سامنے اہل ہدایت اور ضلالت کے درمیان فرق وامتیاز بالکل واضح ہو جائے گا جس کی صورت یہ ہوگی کہ جو لوگ جنت کی سعادت سے نوازے جانے والے ہوں گے ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں پہنچ جائیں گے اور جن کو دوزخ میں ڈالا جانا ہوگا ان کے نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں پہنچادئیے جائیں گے ۔
اس حدیث کے بارے میں ترمذی نے جو کچھ کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت حسن بصری کا حدیث سننا ثابت نہیں ہے اس لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی اس روایت کی سند منقطع اور غیر متصل ہوئی جس کی بناء پر اس حدیث کو مذکورہ سند وروایت کے ساتھ صحیح نہیں کہا جا سکتا لیکن جزری نے تصحیح المصابیح میں کہا ہے کہ بخاری نے اپنی صحیح ( یعنی بخاری شریف ) میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایسی تین حدیثیں نقل کی ہیں جن کو انہوں نے ( یعنی حسن بصری نے) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے البتہ صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے جس کو انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہو بہر حال جزری کی بات سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو بھی اصل حدیث کی صحت پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعض محدثین نے اس روایت کو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے اور انہوں نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے ، اور اس طریق سے اس روایت کی سند متصل ہوگی جس سے اصل حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو جاتا ہے ! بعض حضرات نے کہا ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو متعدد صحابہ کرام جیسے حضرت ابوموسی اشعری ، حضرت انس ابن مالک اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ سے روایت کیا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں