مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 126

مسلمانوں کے دشمن ان کے لئے دوزخ سے نجات کا عوضانہ ہوں گے

راوی:

وعن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم القيامة دفع الله إلى كل مسلم يهوديا أو نصرانيا فيقول هذا فكاكك من النار رواه مسلم .

" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب قیامت کا دن آئے گا ( اور لوگوں کی ابدی نجات وعذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا ) تو اس وقت اللہ تعالیٰ ہر مسلمان ( مرد اور عورت ) کو ایک یہودی یا ایک نصرانی کے حوالہ کر دے گا اور فرمائے گا کہ یہ شخص دوزخ سے تیری چھڑائی ہے یعنی دوزخ کی آگ سے تیری نجات کا سبب ہے ۔ " ( مسلم )

تشریح :
فکک کے معنی ہیں گروی رکھی ہوئی چیز کو چھپانا ! اور اسی سے " فکاک " ( ف کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ گروی رکھی ہوئی چیز کو چھڑایا جائے ! پس " یہ شخص تیرا فکاک یعنی تیری چھڑائی ہے " کا مطلب یہ ہوا کہ گویا مسلمان دوزخ کی آگ میں گروی ہے ، اور قیامت کے دن اس یہودی یا نصرانی کو اس ( مسلمان ) کے بدلہ میں آگ میں بھیج کر اس کو اس آگ سے چھڑایا جائے گا اب اس بات کی تاویل یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مکلف کے لئے ، کہ خواہ کافر ہو یا مؤمن " جنت اور دوزخ میں ایک ایک جگہ مقرر کر رکھی ہے ، لہذا جو شخص ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا اس کی وہ جگہ کہ جو دوزخ میں تھی اس شخص کی جگہ کے ساتھ کہ جو جنت میں ہے بدل دی جائے گی ، اور جو شخص ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوا اس کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا ، پس اس اعتبار سے یہ کافر لوگ گویا دوزخ کی آگ سے مؤمنوں کی نجات کا سبب ہوں گے اس سے واضح ہوا کہ مذکورہ بالا جملہ کی یہ مراد قطعا نہیں ہے کہ کافروں کو مؤمنوں کے گناہوں کے بدلہ میں دوزخ کے سپرد کیا جائے گا کیونکہ حق تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ولا تزروازرۃ وزراخری واضح رہے کہ " یہودی ونصاری " کی تخصیص محض علامتی ہے یعنی یہاں اصلی مراد تو کافر ہیں اور یہود ونصاری کا ذکر صرف اس بنا پر ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی عداوت ودشمنی زیادہ مشہور ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں