لوگوں کو میدان حشر میں کس طرح لایا جائے گا
راوی:
عن أبي ذر قال إن الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم حدثني إن الناس يحشرون ثلاثة أفواج فوجا راكبين طاعمين كاسين وفوجا تسحبنهم الملائكة على وجوههم وتحشرهم النار وفوجا يمشون ويسعون ويلقي الله الآفة على الظهر فلا يبقى حتى إن الرجل لتكون له الحديقة يعطيها بذات القتب لا يقدر عليها . رواه النسائي .
" حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان فرمایا کہ لوگوں کو تین گروہوں میں میدان حشر میں لایا جائے گا ، ایک گروہ تو سواریوں پر ہوں گے اور زادراہ کی آسانیوں وسہولتوں کے ساتھ راحت واطمینان سے آئیں گے ، ایک گروہ وہ ہوگا جس کو فرشتے زمین پر منہ کے بل کھینچتے ہوئے لائیں گے اور ہانک کر دوزخ کی طرف لے جائین گے ، اور ایک گروہ وہ ہوگا جو دوڑتے ہوئے آئے گا ( یعنی وہ لوگ سہولت واطمینان کے ساتھ نہیں بلکہ بے اطمینانی اور پریشانی کے ساتھ چلتے ہوئے آئیں گے ) اور اللہ تعالیٰ ( سواری کے جانوروں کی ) پیٹھ پر آفت وہلاکت مسلط کر دے گا جس کی وجہ سے سواری کے جانور نایاب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اگر کسی شخص کے پاس باغ ہوگا تو وہ باغ دیکر اس کے بدلہ میں ایک اونٹ لینا چاہے گا لیکن وہ ( اس قدر اونچی قیمت ادا کرنے کے باوجود ) اس اونٹ کو حاصل نہیں کر سکے گا ۔ " ( نسائی )
تشریح :
پہلا گروہ ان کامل مؤمنین پر مشتمل ہوگا ۔ جنہوں نے اس دنیا میں نیکی وبھلائی کے کاموں میں سبقت اختیار کی ہوگی ، دوسرا گروہ کفار ومشرکین پر مشتمل ہوگا اور تیسرا گروہ ان مسلمانوں پر مشتمل ہوگا جنہوں نے گناہ کئے ہوں گے ۔
واضح رہے کہ حدیث کا سیاق اور اس حدیث کو اس باب میں ذکر کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ یہاں جس حشر کا ذکر کیا گیا ہے وہ " وہی حشر ) ہے جو قیامت کے دن بپا ہوگا اور لوگ دوبارہ زندہ ہو کر محشر میں آئیں گے ! لیکن حدیث کے آخری الفاظ " اور اللہ تعالیٰ پیٹھ پر آفت وہلاکت تسلط کر دے گا الخ " سے یہ بات صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ وہ حشر مراد نہیں ہے ، جو قیامت کو بپا ہوگا ، اسی طرح ( کھانے پینے والوں ) کے الفاظ بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں ، چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے ، کہ یہاں مذکورہ حشر سے قیامت کے دن کا حشر " مراد نہیں ہے بلکہ وہ " حشرع' مراد ہے جس کو قیامت کی علامت میں سے ذکر کیا گیا ہے ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کو یہاں باب الحشر " میں نقل کرنا اس طراوی ہے اس کے برخلاف ملاعلی قاری نے علامہ تورپشتی کا قول نقل کرکے ، جس میں انہوں نے آیات قرآنی اور احادیث سے استدلال کیا ہے ، اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ وہی حشر ہے جو قیامت کے دن ہوگا ، نیز انہوں نے لکھا ہے کہ خطابی نے جو یہ کہا ہے کہ قیامت سے پہلے کا حشر مراد ہے ، تو ان کا یہ قول خطاء پر محمول ہے ، صحیح قول تور پشتی ہی کا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث میں " حشر " کی مراد کے تعین کے سلسلہ میں یہ جو ساری بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ حضرت ابوذر نے اس حدیث کو جس طرح روایت کیا ہے اس میں خلط ملط ہوگیا ہے لہٰذا بنیادی طور پر ضروری یہ ہے کہ اس خلط ملط کو دور کیا جائے اور وہ یوں کہ کہا جائے کہ اس حدیث میں دو مختلف حدیثوں کے الگ الگ اجزاء مل گئے ہیں جس سے مفہوم میں تضاد پیدا ہوگیا ہے اور یہ راوی کا تسامح ہے اس صورت میں کوئی خلجان اشکال باقی نہیں رہے گا ۔