مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حشر کا بیان ۔ حدیث 106

اہل جنت کا پہلا کھانا

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون الأرض يوم القيامة خبزة واحدة يتكفؤها الجبار بيده كما يتكفأ أحدكم خبزته في السفر نزلا لأهل الجنة . فأتى رجل من اليهود . فقال بارك الرحمن عليك يا أبا القاسم ألا أخبرك بنزل أهل الجنة يوم القيامة ؟ قال بلى . قال تكون الآرض خبزة واحدة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم . فنظر النبي صلى الله عليه وسلم إلينا ثم ضحك حتى بدت نواجذه ثم قال ألا أخبرك بإدامهم ؟ بالام والنون . قالوا وما هذا ؟ قال ثور ونون يأكل من زائدة كبدهما سبعون ألفا . متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی ہوگی جس کو اللہ وند جبار اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر کے دوران الٹ پلٹ کر کے ( یعنی جلدی ) روٹی پکاتا ہے اور یہ روٹی جنتیوں کی مہمانی ہوگی " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرمانے کے بعد ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم ! خدائے پاک مہربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر برکت نازل کرے کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں کہ قیام کے دن جنتیوں کی مہمانی کے طور پر پہلا کھانا کیا ہوگا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بتاؤ ! اس یہودی نے کہا کہ ساری زمین ایک روٹی ہوگی ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ( یہ سن کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تعجب کے اظہار اور ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے چاورں طرف دیکھا اور ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ ؟ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیچلیاں نظر آنے لگیں ، اس کے بعد اس یہودی نے کہا کہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں کو جنیتوں کا سالن کیا ہوگا ( جس سے وہ روٹی لگا کر کھائیں گے ) وہ " بالام " اور " نون" ہے صحابہ ( " بالام " کا مطلب نہیں سمجھ سکے تھے کیونکہ وہ عبرانی لفظ تھا اس لئے انہوں ) نے کہا کہ یہ بالام کیا چیز ہوتی ہے کہا کہ ( بالام کا مطلب ) بیل ہے اور نون ( کے بارے میں تم لوگ جانتے ہی ہو کہ مچھلی کو کہتے ہیں ) اور ان دونوں یعنی بیل اور مچھلی کے گوشت کے اس ٹکڑے سے جو جگر کا زائد ہوتا ہے ، ستر ہزار آدمی روٹی کھائیں ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
" اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا " کے ذریعہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح روٹی پکانے والا شخص روٹی گھڑنے والا اس کو گول ( برابر اور باریک کرنے کے لئے اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر پھیرتا ہے پھر توے یا گرم بھوبل پر اس کو الٹ پلٹ کر سینکتا ہے اسی طرح یہ زمین بھی الٹی پلٹی جائے گی اور اس کو روٹی بنا دیا جائے گا !واضح رہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن یہ روٹی ہو جائے گی اور جنت میں جانے والوں کا کھانا بنے گی کہ وہ جنت میں جانے کے وقت پہلے اس کو کھائیں گے پس حضرات نے حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہر معنی ہی پر محمول کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اس زمین کو روٹی بنا دے اور اہل جنت کو کھانے کے لئے دے !لہٰذا زیادہ صحیح یہی ہے کہ حدیث کا یہی ظاہری مفہوم مراد لیا جائے اور اس بارے میں کسی شک وشبہ کو اندر آنے کا موقع نہ دیا جائے ۔ ویسے کچھ حضرات نے حدیث کے ان مذکورہ الفاظ کو اس کے ظاہری معنی پر حمل نہ کرکے تاویل وتوجیہ کا راستہ اختیار کیا ہے ، لیکن ان کی ان تاویلات وتوجیہات کو طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا جار ہا ہے ۔
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا اور ہنس دیئے " اس یہودی عالم نے جو کچھ بیان کیا وہ تورات میں پڑھ کر بیان کیا تھا اور اس کی وہ باتیں گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں علاوہ ازین وہ باتیں صحابہ کرام کے یقین اور قوت ایمان میں اضافہ کا سبب بنی تھیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان پر اظہار اطمینان کے لئے ہنسے اور اس طرح ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیچلیاں ظاہر ہوگئیں ۔
" ستر ہزار آدمی " سے مراد وہ بندگان خاص ہیں جو حساب ومواخذہ کے مراحل سے گزرے بغیر جنت میں جائیں گے اور جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن وتابناک ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ " ستر ہزار " سے مخصوص عدد مراد نہ ہو بلکہ محض کثرت مبالغہ مراد ہو ۔
" زائدہ کبد " ( یعنی جگر کا زائد حصہ ) اصل میں جگر ہی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اسی کے ساتھ ایک جانب ہوتا ہے اس حصہ کو بہت لذیذ اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔
ایک احتمال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے پوچھنے پر " بالام " کے جو معنی بیان کئے گئے وہ اس یہودی عالم نے نہیں بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کئے ہوں ، اور یہ ہو کہ جب صحابہ اس لفظ کے معنی نہ سمجھے اور انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس سے پہلے کہ یہودی عالم جواب دیتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس عبرانی لفظ کے معنی بتا دیئے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے بیان فرما دئیے ۔

یہ حدیث شیئر کریں