قیامت کے دن عقل کے مطابق جزاء ملے گی۔
راوی:
وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل ليكون من أهل الصلاة والصوم والزكاة والحج والعمرة . حتى ذكر سهام الخير كلها وما يجزى يوم القيامة إلا بقدر عقله
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ایک شخص جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہو ، روزہ رکھنے والوں میں سے ہو زکوۃ دینے والوں میں سے ہو، حج و عمرہ کرنے والوں میں سے ہو یہاں تک کہ آپ نے اسی طرح نیکی بھلائی سے متعلق ساری بڑی بڑی چیزوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ لیکن وہ قیامت کے دن اپنی عقل کے مطابق جزاء پائے گا۔
تشریح
ان حدیثوں میں عقل سے مراد وہ اعلی جوہر ہے جس کے ذریعہ انسان اشیاء و اسباب کی حقیقت کا ادراک کرتا ہے دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور برائیوں کو معلوم کرتا ہے نیکی اور بدی کے درمیان فرق و امتیاز کرتا ہے نفس کی آفات اور گمراہیوں سے اجتناب کرتا ہے نیک راہ روش اختیار کرتا ہے اللہ کا قرب و اتصال حاصل کرتا ہے، بعض عارفین کے کلام میں جس عقل عماد کا ذکر آتا ہے اس سے یہی عقل مراد ہے یہ اعلی جوہر جس شخص میں جس نوعیت کا ہوتا ہے اس کے اندر مذکورہ بالا اوصاف بھی اس کے تناسب سے ہوتے ہیں اسی لئے فرمایا گیا کہ جس شخص میں جتنی عقل ہوگی وہ اس کو قیامت کے دن اسی کے مطابق جزاء دی جائے گی کیونکہ اللہ کی طرف سے جزاء و انعام کا مدار محض عبادات و طاعت یا عبادات و طاعات کی مقدار پر نہیں ہوگا بلکہ عبادت کے حسن و کمال پر ہوگا اور ظاہر ہے کہ عبادات و طاعات میں حسن کمال کیفیت اسی عقل سے متعلق ہے۔ اسی موقع پر علماء اس بارے میں بحث و اختلاف کرتے ہیں کہ آیا علم افضل ہے کہ یا عقل، چنانچہ بعض حضرات نے علم کو افضل قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے عقل کو لیکن اگر یہ کہا جائے کہ علم کا معنوی اطلاق بھی قوت تمیز معرفت پر ہوتا ہے جو عقل کی روشنی میں پائی جاتی ہے تو اس صورت میں بحث اختلاف کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اس اعتبار سے یہ بات البتہ کہی جا سکتی ہے کہ علم عقل کو عمل و عبادت پر فضیلت حاصل ہے چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ صاحب عقل عالم کی ایک رکعت نماز دوسرے لوگوں کی ایک ہزار رکعتوں سے افضل قرار پائے گی۔