مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان ۔ حدیث 985

تجربہ سب سے بڑی دانائی ہے۔

راوی:

عن أبي سعيد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا حليم إلا ذو تجربة رواه أحمد والترمذي وقال هذا حديث حسن غريب

" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کوئی شخص کامل بردبار نہیں ہوتا جب تک اس کو لغزش نہ ہوئی ہو اور کوئی شخص کامل حکیم نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو تجربہ حاصل نہ ہوا ہو اس روایت کو احمد، اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ حلم و بردباری اور لحاظ و مروت کا جو ہر شخص میں ہوتا ہے جس نے دھوکا کھایا ہو لغزشوں اور خطاؤں سے دوچار ہوا ہو گناہ و معصیت کا مرتکب ہو چکا ہو اور اپنے معاملات میں خلل نقصان برداشت کر چکا ہو اور ہوشیار ہونے کے بعد ندامت و خجالت کا برگراں کاندھوں پر اٹھائے پھرا ہو ظاہر ہے کہ ایسا شخص چونکہ اچھی طرح جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی کے دکھ درد اور نفع نقصان کی کیا اہمیت ہوتی ہے کسی کے عیوب چھپانے اور کسی کی خطاؤں کی سے درگزر کرنے کی کتنی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ دوسروں کے تئیں حلم و بردبار اور خیر خواہ ہوتا ہے لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اگر کسی سے کوئی خطا ہوجا تی ہے تو اس سے درگزر کرتا ہے۔
حکیم اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو دانا و عقل مند ہے راست باز ہو کیونکہ حکمت کے معنی ہیں ہر چیز کی حقیقت و اصلیت کو جاننا اور تجرمہ کا مطلب ہے کاموں کی واقفیت حاصل کرنا اور کسی کام کو کرنے کا طریقہ جانتا لہذا فرمایا گیا ہے کہ جس شخص کو اشیاء کی حقیقت و پہچان حاصل ہوئی ہو ہر چیز کے نفع نقصان سے آگاہ ہوا حالات کے اتار چڑھاؤ اور معاملات و افراد کی بھلائی برائی سے وقف ہو اس کو حکمت کی دولت مل گئی اور وہ کامل حکیم ہوا۔ اور اگر حکیم سے طبیب مراد لیا جائے تو بھی مطلب بالکل صاف ہے کہ کوئی شخص محض علم طب پڑھنے سے کامل و معالج نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لئے تجربہ اور معالجہ کی مشق و مزادلت ضروری ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں