حلم و بردباری اور توقف و آہستگی کی فضیلت
راوی:
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لأشج عبد القيس إن فيك لخصلتين يحبهما الله الحلم والأناة . رواه مسلم
" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عبدالقیس کے سردار اشج سے فرمایا کہ تمہارے اندر جو دو خوبیاں ہیں ان کو اللہ بہت پسند کرتا ہے (خواہ کسی شخص میں ہوں حلم و بردباری اور دوسرے توقف و آہستگی۔ (مسلم)
تشریح
عبدالقیس ایک قبیلہ کا نام ہے جب اس قبیلہ کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت و ملاقات کے لئے مدینہ آئے اور مسجد نبوی کے سامنے پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر فرط شوق سے اپنے اونٹوں سے کود پڑے بے تابانہ اور دیوانہ وار دوڑتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں محبت و عقیدت اور شوق ملاقات کی بے قراری کا اظہار نہایت جذباتی طور پر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس بیقرار اور مظطرب حالت میں دیکھا تو سکوت فرمایا ان سے کچھ نہیں کہا لیکن یہ لوگ عظیم المرتبت شخصیت اور اپنے سردار یعنی اشج کی زیر قیادت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تھے اور جن کا اصل نام منذر تھا ان کی کیفیت بالکل دوسری تھی وہ پہلے اپنی قیام گاہ پر اترے وہاں انہوں نے اپنے تمام رفقاء کا سامان جمع کیا اور ساری چیزوں کو باندھ کر اطمینان کے ساتھ نہائے دھوئے نہایت نفیس پاکیزہ زیب تن کئے اور پھر انتہائی وقار و تمکنت کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی دعا مانگی اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ وضع اور روش بہت پسند آئی اور ان سے مذکورہ بالا الفاظ ارشاد فرمائے۔
ایک روایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے ان دونوں خوبیوں کا ہونا بیان فرمایا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے اندر جو یہ دو خوبیاں ہیں ان کو میں نے از راہ تکلف اختیار کیا ہے اور میری خود ساختہ ہیں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو میری فطرت میں پیدا کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ان دونوں خوبیوں کو تمہارے مزاج و فطرت میں ودیعت رکھا ہے یہ سن کر انہوں نے کہا کہ اللہ کا لاکھ شکر ہے اور احسان ہے کہ اس نے مجھ کو ان دو خوبیوں کے ساتھ استوار کیا جن کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتا ہے یعنی اگر یہ دونوں خوبیاں میری خود ساختہ اور از راہ تکلف اختیار کی ہوئی ہوتیں تو ان کے زائل ہونے یا ان میں نقصان پیدا ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے مگر چونکہ فطری طور پر ہیں اور اللہ کی عطا کی ہوئی ہیں اس لئے میں بجا طور پر امید رکھتا ہوں کہ یہ دونوں میرے اندر ہمیشہ رہیں گے اور باقی رہیں گے۔