حسد اور افلاس کی برائی۔
راوی:
وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كاد الفقر أن يكون كفرا وكاد الحسد أن يغلب القدر
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا فقر افلاس و قریب ہے کہ کفر کی حد تک پہنچا دے اور حسد قریب ہے کہ تقدیر پر غالب آ جائے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جز کا مطلب یہ ہے کہ فقر و افلاس اور تنگدستی ایسی بری چیز ہے کہ بسا اوقات انسان اس سے مجبور ہو کر کفر کی حد تک پہنچ سکتا ہے چنانچہ جو فقیر مفلس، صبر استقامت کی طاقت کھو کر قلبی افلاس میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ اللہ کی ذات پر اعتماد بھروسہ کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت مایوسی کے عالم میں اللہ کے نظام قدرت پراعتراض کرنے لگتا ہے یا تقدیر الٰہی کا شکوہ گلا کر کے اللہ کے حکم و فیصلہ پر ہر حالت میں راضی رہنے کے تقاضا کو پس پشت ڈال دیتا ہے یا اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے غیر اللہ کے سامنے دست سوال کرنے لگتا ہے اور ماسواء اللہ کو اپنا حاجت روا ماننے لگتا ہے اور یا جب وہ دیکھتا ہے کہ اکثر کافر مال دار ہیں اور عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے برخلاف اکثر مسلمان افلاس تنگدستی کی آزمائش میں مبتلا ہیں تو وہ کفر کی طرف مائل ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فقر و افلاس در اصل مسلمانوں کے لئے ایک آزمائش اور امتحان کا درجہ رکھتا ہے چنانچہ جو لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں اور مال و دولت اور دنیاوی زندگی کے اعتبار سے مفلس و قلاش ہونے کے باوجود اپنے دل کو غنی رکھتے ہیں اور تقدیر الٰہی پر صابر و شاکر رہ کر اس امتحان و آزمائش میں پورے اترتے ہیں ان کے حق میں وہی فقر و افلاس ایمان کی پختگی اور ترقی درجات کا ضامن بن جاتا ہے لہذا جو مسلمان مال و دولت سے نہی دست اور فقر و افلاس میں مبتلا ہوں اور تمام تر انسانی تدابیر اور محنت و مشقت کے باوجود تنگی حالات سے نجات نہ پاتے ہوں ان کو چاہے کہ وہ اپنی اس حالت کو اللہ کی طرف سے امتحان و آذمائش سمجھیں اور یہ یقین کر لیں کہ یہ دنیا اور دنیا کی ساری پریشانیاں مرد مومن کے لئے ایک ایسا وقفہ حیات ہے جس میں اگر صبر و استقامت اور اللہ کی ذات پر توکل کی دولت نصیب ہو گئی تو کبھی نہ کبھی دنیا میں بھی حالات تبدیل ہو سکتے ہیں اور آخرت کی فلاح و کامیابی تو یقینا نصیب ہو گی اور یہاں کی ساری کلفتیں اور پریشانیاں وہاں کی بے پایاں نعتموں اور لازوال آسائشوں میں تبدیل ہو جائیں گی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے" اور جو مسلمان اس قید خانہ کی تکلیف و مصائب کو خندہ پیشانی کے ساتھ انگیز کر لے ان کے لئے اللہ نے آخرت کی بے پایاں انعامات کا وعدہ کیا ہے قرآن کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے۔ آیت (لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔ اے مومن تجھ کو ان کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا مغالطہ میں نہ ڈالے کیونکہ یہ چند روزہ بہار ہے پھر ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے دوزخ ہوگا وہ برا ہی مقام ہے لیکن جو لوگ اللہ سے ڈریں اور مسلمان ہو جائیں ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ ان کی مہمانی ہوگی اللہ کی طرف سے اور جو چیزیں اللہ کے پاس ہیں یہ نیک بندوں کے لئے بدرجہا بہتر ہیں۔
منقول ہے کہ بعض صحابہ جب کفار مشرکین کی تجارتی سرگرمیوں ان کے یہاں مال و دولت کی ریل پیل کو دیکھتے اور ان کو دنیا کی راحت و آسائش میں دیکھتے تو ان کی زبان پر یہ الفاظ آ جاتے تھے کہ یہ لوگ جو اللہ کے دشمن ہیں ان کا حال تو ہم بڑا اچھا دیکھتے ہیں لیکن ہم محنت و مشقت کی سختیوں اور افلاس بھوک کی جانکاہیوں سے دم توڑتے نظر آ رہے ہیں اس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ دنیا کا یہ آرام و چین اور یہاں کی ساری عیاشی چند روزہ ہے ان کو جلد ہی فنا ہو جانا ہے لیکن تمہیں آخرت کا جو آرام و چین اور وہاں کی جو آسائشیں اور راحت نصیب ہونے والی ہے وہ لازوال ہیں جن کو کبھی فنا نہیں آئے گی لہذا تم لوگ فنا ہونے والے چین اور چند روزہ کی راحت کی تمنا نہ کرو بلکہ ان نعمتوں کے امیدوار رہو جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں ۔
جس طرح فقر و افلاس بسا اوقات کفر کی حد تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح بسا اوقات مال و دولت کی زیادتی بھی گمراہ کر دیتی ہے دولت مندی کا نشہ انسان کو تمرد و سرکشی میں مبتلا کر دیتا ہے اور حد سے زیادہ راحت و آسائش کا فتنہ گناہ معصیت کے اندھیروں میں پھینک دیتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خواہ مالداری ہو یا افلاس ان دونوں کا معتدل طور پر رہنا زندگی کو گمراہی کی ضلالت سے بچا سکتا ہے چنانچہ وہ فقر افلاس جس کو انگیز کیا جا سکتا ہو مایوسی اور کفر کی حد تک پہنچنے سے روکے رکھتا ہے اور بقدر ضرورت مال و دولت کا ملنا سرمایہ داری کے نشہ سے محفوظ رکھتا ہے جس کی وجہ سے تمرد سرکشی اور گناہ و معصیت کا خدشنہ نہیں رہتا لہذا خیر الامور اوسطھا کا اصول ان دونوں پر بھی صادق آتا ہے ۔ حدیث کے دوسرے جز اور حسد قریب ہے کہ تقدیر الٰہی پر غالب آ جائے گا مطلب یہ ہے کہ بفرض محال کوئی ایسی چیز ہوتی جو تقدیر پر غالب آ جاتی اور اس کو بدل دینے کی طاقت رکھتی تو وہ حسد ہوتا اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ حسد، حاسد کو اس گمراہ کن گمان تک لے جاتا ہے کہ وہ تقدیر الٰہی کو بھی بدل سکتا ہے۔