ایک زوجہ مطہرہ کی بد گوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی
راوی:
وعن عائشة قالت اعتل بعير لصفية وعند زينب فضل ظهر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزينب أعطيها بعيرا . فقالت أنا أعطي تلك اليهودية ؟ فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرها ذا الحجة والمحرم وبعض صفر . رواه أبو داود .
وذكر حديث معاذ بن أنس من حمى مؤمنا في باب الشفقة والرحمة
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا اس وقت زینب کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ سواری تھی یعنی ان کے پاس ایک اونٹ ضرورت سے زیادہ تھا لہذا رسول اللہ نے زینب سے فرمایا کہ تم اپنا وہ اونٹ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بھلا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دوں گی، یعنی انہوں نے صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنا اونٹ دینے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ ان کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی بیان کئے چنانچہ رسول اللہ ان سے سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ آپ نے ذی الحجہ اور محرم کے پورے مہینے اور ماہ صفر کے کچھ دنوں تک ان سے ملنا جلنا چھوڑے رکھا (ابوداؤد) اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت من حمی مومناالخ باب الشفعہ میں نقل کی جا چکی ہے۔
تشریح
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک یہودی حی بن اخطب کا سلسلہ نسب چونکہ اوپر جا کر حضرت ہارون علیہ السلام سے مل جاتا تھا اس لئے ان کو ایک پیغمبر یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولا میں سے ہونے کا نسبی شرف بھی حاصل تھا حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پہلی شادی ایک یہودی ابوالحقیق سے ہوئی تھی جب جنگ خیبر میں وہ مارا گیا اور صفیہ قیدی بن کر بارگاہ رسالت میں لائی گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رہا کر دیا اور پھر ان سے عقد کر لیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج ان کو ناپسند کرتی تھیں اور خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی انہیں میں سے تھیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری ازواج کی طرح ان سے بھی برابر کا تعلق تھا اور ان کی حمایت و رعایت کرتے تھے ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی بات پر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہودیہ کہا اور کچھ سخت سست بھی کہا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہو کہ تم ابوبکر کی بیٹی ہو اور میں پیغمبر زادی ہوں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں پہلے ان کا نام برہ تھا اور پہلی شادی عبداللہ ابن زمعہ سے ہوئی تھی جب یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں تو آپ نے ان کا نام زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا رکھا۔
اس حدیث سے یہ بات تو معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو اس کی گزشتہ زندگی کے تعلق کا طعنہ دینا اس کی حقارت کرنا نہایت نازیبا بات ہے دوسری بات یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بد گوئی پر ان سے سخت ناراض ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک ان سے ترک ملاقات اختیار کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی شرعی مصلحت کی بنا پر کسی مسلمان سے تین دن سے زائد بھی ترک ملاقات کی جا سکتی ہے مثلا اگر کوئی شخص کسی قبیح فعل کا مرتکب ہو تو اس کی تادیب کی خاطر نہ کہ کسی بغض و عداوت کی خاطر اس سے تین دن سے زیادہ بھی ملنا جلنا چھوڑے رکھنا جائز ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے۔