صلح کرانے کی فضیلت
راوی:
وعن أبي الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا أخبركم بأفضل من درجة الصيام والصدقة والصلاة ؟ قلنا بلى . قال إصلاح ذات البين وفساد ذات البين هي الحالقة . رواه أبو داود والترمذي وقال هذا حديث صحيح
" اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتا دوں جس کے ثواب کا درجہ روزے، صدقے اور نماز کے ثواب سے زیادہ ہے ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سن کر عرض کیا ہاں ضرور بتا دیں آپ نے فرمایا آپس میں دشمنی رکھنے والے دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا اور دو آدمیوں کے درمیان فساد و نفاق پیدا کرنا ایک ایسی خصلت ہے جو مونڈنے والی ہے یعنی اس خصلت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات اور دین میں نقصان و خلل پیدا ہوتا ہے اس روایت کو ترمذی ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ والصدقہ میں حرف واؤ جمع کے لئے ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ صلح صفائی کرانا ان سب عبادات سے افضل ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ حرف واؤ مفہوم کے اعتبار سے او کے معنی میں ہو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ صلح صفائی کرانا ان عبادتوں سے افضل ہے حدیث کا جو مقصد ہے یعنی آپس میں دشمنی رکھنے والوں کے درمیان صلح کرانے کی ترغیب دلانا اس کے پیش نظر پہلا قول زیادہ بہتر ہے۔
ملا علی قاری نے بعض حضرات کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حدیث میں صلح کرانے کو جو روزہ، صدقہ اور نماز سے افضل کہا گیا ہے تو یہاں فرض روزہ یا فرض صدقہ یا فرض نماز مراد نہیں ہے بلکہ نوافل مراد ہیں ۔ اس کے بعد ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ میرا کہنا یہ ہے کہ ویسے تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقی معنی مراد کیا ہے لیکن اگر وہ فریقوں کے درمیان پائی جانے والے دشمنی و عداوت کی نوعیت یہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی خون ریزی مال و اسباب کی غارت گری اور عزت و ناموس کی بے حرمتی کا ہونا یقینی ہو تو قیاس کہتا ہے کہ ایسی عداوت و دشمنی کو خمت کرانا اور دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرنا مذکورہ فرض عبادات سے بھی افضل ہے کیونکہ اول تو یہ عبادات ایسا عمل ہیں جو کسی وقت چھوٹ جائیں تو ان کی قضا ہو سکتی ہے جب کہ اس عداوت دشمنی کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والی جانیں تباہ برباد ہونے والے مال اسباب اور بے حرمت ہونے والی عزتیں و ناموس کی مکافات ممکن نہیں دوسرے یہ کہ ان عبادات کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور مذکورہ ہلاکت و تباہی کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ بعض اعتبار سے پروردگار کے نزدیک حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کی اہمیت ہے لہذا اس حقیقت کی بناء پر یہ کہنا زیادہ صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ جنس عمل کو ان عبادات پر جزوی فضیلت بہر حال حاصل ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے البشر خیر من الملک والرجل خیر من المراۃ۔ یعنی انسان فرشتہ سے بہتر ہے اور مرد عورت سے بہتر ہے۔
" ذات البین کے معنی ہیں وہ احوال جن میں لوگ باہمی طور پر مبتلا ہوں جیسے بغض و عداوت اور جنگ و جدل وغیرہ اور اصلاح کے معنی ہیں ان احوال کو درست کرنا اس اعتبار سے اصلاح ذات البین کا معنی یہ ہوگا کہ کچھ لوگ آپس میں برے حالات کا شکار ہوں مثلا وہ ایک دوسرے کے بغض عناد میں مبتلا ہو کر اور آپس میں لڑائی جھگڑے میں پھنس کر اپنے آپ کو فتنہ و فساد میں ڈالے ہوئے ہوں تو ان کے بغض و عناد کو باہمی محبت و الفت میں بدلا جائے ان کو فتنہ و فساد سے نکال کر صلح کی طرف لایا جائے اس کے برخلاف ، فساد ذات البین ہے یعنی فساد و نفاق پیدا کرنا، جس کو لفظ حالقہ سے تعبیر کیا گیا ہے حالقہ اصل میں حلق سے ہے جس کے معنی ہیں بال مونڈنا اور حالقہ بال مونڈنے والی کو کہتے ہیں یہاں اس لفظ سے مراد تباہ برباد کرنا اور جڑ سے اکھاڑنا ہے مطلب یہ ہے کہ فساد ذات البین یعنی لوگوں کے درمیان افتراق و انتشار کے فتنہ کا بیج بونا ایک ایسی خصلت ہے جو دین کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اور ثواب کے حصول کو بالکل ختم کر دیتی ہے۔ اور ثواب کے حصول کو بالکل ختم کر دیتی ہے جیسا کہ استرا بالوں کو جڑ سے صاف کر دیتا ہے بہر حال اس ارشاد گرامی کا مقصد لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے اور فتنہ و فساد کو مٹانے کی ترغیب دلانا اور لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے سے متنفر کرنا ہے۔