مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 957

ان باتوں سے ممانعت جن سے معاشرہ کی انفرادی واجتماعی زندگی فاسد ہوتی ہے۔

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا . وفي رواية ولا تنافسوا . متفق عليه

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بد گمانی قائم کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ بد گمانی باتوں کا سب سے بدتر جھوٹ ہے (اپنے سے غیر متعلق امور اور بلا ضرورت دوسروں کے احوال کی) ٹوہ میں نہ رہو کسی کی جاسوسی نہ کرو کسی کے سودے نہ بگاڑو ، آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو اور سارے مسلمان اللہ کے بندے اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو، اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپس میں حرص نہ کرو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث میں جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان کا معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بھاؤ سے براہ راست تعلق ہے ان باتوں سے اگر اجتناب کیا جائے تو معاشرہ میں پھیلنے والی بہت سی خرابیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ بد گمانی کو باتوں کا سب سے بدتر جھوٹ فرمایا گیا ہے چنانچہ جب کوئی شخص کسی کے بارے میں بد گمانی کرتا ہے تو وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے اور چونکہ وہ شخص حقیقت میں ایسا نہیں ہے اس لئے اس فیصلہ کو جھوٹ ہی کہا جائے گا واضح رہے کہ باتوں سے مراد وہ باتیں جو نفس پیدا کرتا ہے اور حقیقت میں وہ شیطان کی طرف سے ہیں اسی اعتبار سے بد گمانی کو بدترین جھوٹ کہا گیا ہے یا یہ کہ اس کو بدترین جھوٹ کا نام دینا گویا اس کیبرائی کو زیادہ سے زیادہ کر کے بیان کرنا مقصود ہے قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا ہے آیت (ان بعض الظن اثم) چنانچہ ان الفاظ میں جس ظن کو گناہ قرار دیا گیا ہے اس سے بد گمانی مراد ہے اور جیسا کہ علماء نے وضاحت کی ہے جس سے بد گمانی کے بارے میں ممانعت منقول ہے اس سے وہ بد گمانی منقول ہے جو ذہن میں بیٹھ جائے اور جیسا کہ علماء نے وضاحت کی ہے ۔ اس سے وہ بد گمانی مراد نہیں ہے جو محض خیالی طور پر دل سے گزر جائے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ بد گمانی گناہ گار اس وقت کرتی ہے جب کہ اس کا ذکر کیا جائے اور اس کو زبان پر لایا جائے نیز بہر صورت اس بد گمانی کے موجب گناہ ہونے کی شرط یہ بھی ہے کہ اس بد گمانی کو قائم کرنے لئے کوئی معقول وجہ اور دلیل نہ ہو یا اگر بد گمانی کی بھی معقول وجہ اور دلیل ہو تو بدگمانی نہ کرنے کی بھی کوئی معقول وجہ اور دلیل ہو، اور دونوں دلیلیں باہم متعارض ہوں ہاں اگر اس بدگمانی کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی ایسا واضح قرینہ اور معقول دلیل ہو جس کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو اسی بد گمانی پر مواخذہ نہیں ہوگا اور نہ اس حقیقی معنی میں اس کو بد گمانی کہیں گے۔
تحسس اور تجسس یعنی ٹو اور جاسوسی بظاہر ایک مفہوم کے حامل دو الفاظ ہیں علماء نے کئی وجوہ سے ان دونوں کے درمیان فرق ظاہر کیا ہے اس سلسلے میں مختلف اقوال منقول ہیں چنانچہ صاحب قاموس نے جیم کی فصل میں لکھا ہے کہ تجسس کے معنی ہیں کہ خبروں کی تلاش میں رہنا جیسا کہ تجسس کے معنی ہیں جاسوس "وجس" اسی سے مشتق ہیں جن کے معنی ہیں ایسی پوشیدہ خبریں رکھنے والا جو اچھی نہ ہوں پھر انہوں نے حاء کی فصل میں لکھا ہے کہ حاسوس کے وہی معنی ہیں جو جاسوس کے ہیں یا یہ کہ حاسوس خاص طور پر ایسی پوچیدہ خبریں رکھنے والے کو کہتے یہں جو اچھی ہوں بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ تجسس کے معنی ہیں اچھی خبروں کو ہوشیاری اور نرمی کے ساتھ دریافت کرنا اور تحسس کے معنی ہیں کسی شخص کی برائیوں اور عیوب کی تفتیش کرنا اور تحسس کا معنی ہے ان خبروں کو قوت حاسہ سے دریافت کرنا جیسے کوئی شخص کسی بات کو چوری چھپے سنتا اور دیکھتا ہے ۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ تجسس کے معنی ہیں کسی شخص کی برائیوں اور عیوب کی تفتیش کرنا اور تحسس کے معنی ہیں ان برائیوں اور عیوب کو سننا بعض حضرت یہ کہتے ہیں کہ تجسس کے معنی ہیں دوسرے کے لئے خبر کی ٹوہ میں رہنا اور تحسس کے معنی ہیں اپنے لئے کسی کی خبر کی ٹوہ لگانا۔ اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں تجسس مراد ہے خواہ اپنے طور پر یا کسی کی مدد سے دوسرے لوگوں کے عیوب اور ان کے پوشیدہ ذاتی احوال و معاملات کی ٹوہ لگانا اور تحسس کے معنی ہیں کسی کی مدد کے بغیر اپنے ٹوہ لگانا بہرحال اگر حدیث کی مراد لوگوں کے احوال و معاملات کی لگانے اور ایسی خبروں کی تلاش میں رہنے سے منع کرنا ہے جن کا تعلق عیب و بڑائی اور کردار احوال کی کمزرویوں سے ہو تو اس کی ممانعت بالکل ظاہر ہے اور اگر اچھی خبر کی تلاش میں رہنے اور اچھے احوال معاملات کی ٹوہ میں رہنے سے بھی منع کرنا مراد ہے تو اس صورت میں اس ممانعت کی وجہ یہ بیان کیجائے گی کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے بارے میں کوئی خبر اچھی پانے کے بعد اپنے اندر کے حسد کا جذبہ پیدا ہو جائے یا طمع و حرص جاگ اٹھے جو کوئی اچھی چیز نہیں ہے، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ کسی کی اچھی خبر کی ٹوہ میں بھی نہ رہا جائے۔
ولاتناجشوا۔ اس میں اصل نجش ہے جس کے اصل معنی شکار کو برانگیختہ کرنا، بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ دوسروں کے مقابلہ میں اپی عظمت و وقعت اور بڑائی کی طلب و خواہش کرنا اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کسی کو دھوکا دینے کے لئے بکنے والی چیز کو چڑھا چڑھا کر تعریف کرنا یا مصنوعی خریدار بن کر بکنے والی چیز کی قیمت بڑھانا کہ تاکہ دوسرا شخص اس کے دیکھا دیکھی اس چیز کو اسی قیمت میں خرید لے یا کسی بکتی ہوئی چیز کی برائی کرنا تاکہ خریدار اس کو چھوڑ کر دوسری طرف ہو جائے عام طور پر علماء نے حدیث میں اسی لفظ کو اسی پر محمول کیا ہے یعنی مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی بھی طریقے سے سودے کو بگاڑنا، بعض حضرات نے اس لفظ کے اصل معنی رعایت سے حدیث میں ولاتناجشوا کے یہ معنی مراد لئے ہیں کہ کسی کو کسی کی برائی اور خصومت پر نہ اکساؤ۔
ولاتحاسدوا۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر ظالم کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اس کے زوال کی آرزو نہ کرو یا یہ خواہش نہ کرو کہ وہ نعمت اس کے پاس سے ہٹ کر تمہارے پاس آ جائے۔
ولاتباغضوا ۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو کا مطلب یہ ہے کہ ایسے اسباب کو پیدا کرنے سے احتراز کرنا چاہے جو بغض و نفرت کو لازم کرتے ہیں یہ وضاحت اس بناء پر ہے کہ جس طرح محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو خود بخود پیدا ہوتا ہے اسی طرح بغض و نفرت بھی پیدائشی ہیں کہ اس جذبہ کے پیدا ہونے یا نہ ہونے میں کسی شخص کا کوئی اختیار نہیں ہے البتہ انسان اپنے آپ کو ایسے اسباب سے محفوظ رکھے پر یقینا قادر ہو سکتا ہے جن سے باہمی بغض و نفرت پیدا ہو سکتی ہے بعض حضرات لاتباغضوا کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ شرعی احکام و مسائل میں خواہشات نفسانی کی بناء پر آپس میں اختلاف و انتشار پیدا نہ کرو اور خود ساختہ افکار و نظریات کو دین میں شامل نہ کرو کیونکہ دین میں بدعت اختیار کرنا اور راہ مسقیم سے گمراہ ہونا وہ اسباب ہیں جو مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے بغض و نفرت کو پیدا کرتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث میں ایک دوسرے سے بغض رکھنے کی ممانعت کا اصل مقصد باہمی محبت و الفت کے حکم کو مؤ کد کرتا ہے اور محبت و الفت کے اسی حکم کو تعلق علی الاطلاق مسلمانوں کی پوری زندگی سے ہے البتہ جس محبت و الفت سے دین میں خلل پڑتا ہو اس صورت میں محبت کو جائز قرار دینا جائز نہیں بلکہ دین کو نقصان پہنچانے والے شخص سے بغض و نفرت ہی رکھنا جائز ہوگا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے محبت و اتحاد کی زنجیر میں منسلک رہیں جو ارشاد الٰہی کا بھی تقاضا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا۔ آیت (واعتصمو بحبل اللہ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محبت و الفت اتحاد کی بنیاد پر ہے اور بغض و نفرت افتراق کا ذریعہ ہے لہذا فرمایا گیا ہے کہ تم ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ لاتباغضوا کے معنی یہ ہیں کہ تم مسلمانوں کے درمیان عدوات و دشمنی پیدا نہ کرو۔ اس صورت میں مذکورہ ممانعت کا تعلق گویا چغل خوری سے ہوگا، کیونکہ چغل خوری سے فساد کی بنیاد پڑی ہے اور ایک دوسرے سے عدوات پیدا ہو جاتی ہے۔
ولاتدابرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی پیٹھ کے پیچھے برائی بیان نہ کرو۔ اور طیبی نے کہا ہے کہ تدابر سے مراد تقاطع ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا چھوڑ دو اس معنی کو مذکورہ جملہ سے لفظی مناسبت بایں طور ہے کہ ترک ملاقات کرنے والوں میں سے ہر ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر لیتا ہے اور اسلام کے بتائے ہوئے باہمی حقوق کی ادئیگی سے گریز کرتا ہے۔
(وکونوا عباد اللہ اخوانا۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور عبودیت میں سب برابر ہو نیز تم سب اخوہ کی ایک زنجیر سے منسلک ہو لہذا تمہارا اس حثییت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کے درمیان حسد بغض اور غیبت جیسی برائیوں کو حائل کرنے کے اپنے دلوں میں افتراق اور اپنی صفوں میں انتشار پیدا نہ کرو بلکہ اپنے مرتبہ عبودیت پر اتحاد کے ساتھ قائم رہو اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔
ولاتنافسوا۔ میں لفظ تنافس لغوی طور پر تحاسد کے معنی کے قریب ہے لیکن احتمال یہ رہے کہ تنافس کے معنی دنیا کے طرف میلان رکھنا ہو اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ مجھے خدشہ ہے کہ تم پر دنیا کے دروازے کھول دیئے جائیں اور تنافس کرنے لگو۔ یعنی تم دنیا کی طرف راغب ہو جاؤ اسی اعتبار سے ترجمہ میں تنافس کے معنی آپس میں حرص کرنا نقل کئے گئے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں