مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 956

تین دن سے زیادہ خفگی رکھنا جائز نہیں

راوی:

عن أبي أيوب الأنصاري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذاوخيرهما الذي يبدأ بالسلام . متفق عليه

" حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا یہ شخص کسی کے لئے حلال نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ملنا جلنا چھوڑ دے اور صورت یہ ہو کہ جب وہ کہیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو یہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے اور وہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے یعنی دونوں ہی ایک دوسرے سے سلام و کلام کا اور ملاقات کا احتراز کریں اور ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو خفگی کو دور کرنے کے لئے پہل کرے اور سلام میں پہل کرے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
تین دن سے زیادہ کی قید کی بناء پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے اظہار خفگی کی خاطر تین دن تک ملنا جلنا چھوڑ دے تو یہ حرام نہیں ہے کیونکہ انسان کی طبعیت میں غیظ و غضب، غیرت و حمیت بے صبری کا جو مادہ ہے وہ بہر حال اپنا اثر ضرور ظاہر کرتا ہے اس لئے اس قدر مدت معاف کر دی گئی ہے تاکہ انسان کے ان جذبات کی بھی کچھ تسکین ہو جائے اور اس تین دن کے عرصہ میں خفگی و ناراضگی اور بغض و نفرت کے جذبات بھی ختم ہو جائیں یا کم سے کم ہلکے پڑ جائیں اور صلح و صفائی کر لیں۔ بہرحال حدیث کی مراد یہ ہے کہ اجتماعی طور پر ایک جگہ رہنے سہنے اور روزہ مرہ کے باہمی معاملات کی وجہ سے آپس میں نزاع ہو جایا کرتا ہے اور ایک دوسرے سے کوئی شکایت پیدا ہو جانے کی وجہ سے خفگی ناراضگی صورت پیش آ جاتی ہے مثلا ایک شخص نے کسی کی غیبت کر دی برا بھلا کہہ دیا اور یا تو اس شخص کی خیر خواہی کی امید تھی مگر اس نے خیر خواہی نہیں کی تو اس طرح کی صورتوں میں اگر آپس میں نارضگی ہو جائے اور ترک ملاقات کی نوبت آ جائے تو اس خفگی اور ترک ملاقات کو تین دن سے زیادہ نہیں رہنے دینا چاہیے ہاں اگر ترک ملاقات کی دینی معاملہ کی وجہ سے ہو جیسے کوئی شخص خواہشات نفسانی کا غلام بن گیا ہو یا کوئی شخص بدعتی ہو تو اس صورت میں ترک ملاقات جائز ہے اس وقت تک جب تک وہ توبہ نہ کر لے اور راہ راست اختیار نہ کر لے اور حق کی طرف رجوع نہ کر لے۔
سیوطی نے موطا کے حاشیہ میں لکھا ہے اور عبدالبر سے نقل کیا ہے انہوں نے کہا علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کو یہ خوف ہو کہ اگر میں فلاں آدمی سے سلام کروں اور اس سے ملنا جلنا رکھوں تو اس کی وجہ سے مجھے دینی یا دنیاوی نقصان برداشت کرنا پڑے گا اور میرا قیمتی وقت ضائع ہوگا وہ شخص اس سے کنارہ کشی کر لے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرے لیکن یہ کنارہ کشی اور دوری اختیار کرنا اچھے انداز میں ہونا چاہیے یہ نہیں کہ اس کی غیبت کی جائے اور اس پر عیب لگائے جائیں اور اس کے تئیں کینہ و عداوت کو ظاہر کیا جائے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانہ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں مسلمانوں کا دینی مصالح کے پیش نظر ایک دوسرے سے تین دن سے زیادہ بھی ترک ملاقات کئے رہنا ثابت ہے، چنانچہ احیاء العلوم میں صحابہ کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ ان میں سے بعض مرتے دم تک ترک ملاقات پر قائم رہے ان تین صحابہ کا واقعہ بہت مشہور ہے جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں نفاق کی راہ پا جانے کے خدشہ سے ان کو تمام مسلمانوں سے الگ تھلگ کر دیا تھا یہاں تک کہ آپ نے تمام صحابہ، ان تینوں کی ازواج اور ان کے عزیز و اقا رب کو ان سے ترک ملاقات اور ترک سلام کلام کا حکم دیا تھا یہ حکم اور اس پر عمل پچاس دنوں تک جاری رہا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے ایک مہینہ تک اپنی ازواج مطہرات سے ملنا جلنا چھوڑے رکھا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مدت تک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک ملاقات اختیار کی رکھی اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے بیٹے حضرت بلال سے ایک دینی معاملہ میں اس درجہ ناراض ہوئے کہ ان سے بات چیت کرنا چھوڑ دی تھی غرض ایسے بہت سے واقعات منقول ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ دینی معاملات میں خفگی ناراضگی تین دن سے زیادہ بھی جاری رکھی جا سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ نیت صادق رکھی جائے اور اس میں کسی نفسانی خواہش اور دنیاوی غرض دخل نہ ہو۔" جو سلام کے ذریعہ ابتداء کرے کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو شخص خفگی و ناراضگی کو ختم کرنے کے پہلے سلام کرے گا اس کا درجہ دوسرے کے مقابلہ پر بڑا ہوگا نیز اس میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا ترک ملاقات کے گناہ کو زائل کر دیتا ہے اور یہ کم سے کم ترک سلام کو ختم کر ہی دینا چاہیے تاکہ اخوۃ اسلامی کا یہ بنیادی حق ضائع نہ ہونے پائے۔

یہ حدیث شیئر کریں