مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان ۔ حدیث 946

دشمنان دین اور بدکاروں کے ساتھ محبت وہم نشینی نہ رکھو

راوی:

وعن أبي سعيد أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول لا تصاحب إلا مؤمنا ولا يأكل طعامك إلا تقي . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي

" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان کے علاوہ اور کسی کافر و مشرک کو اپنا ہم نشین اور دوست نہ بناؤ یا یہ مراد ہے کہ نیکوکار مسلمان کے علاوہ کسی فاسق و بدکار سے دوستی مت کرو اس مراد کا قرینہ وہ جملہ ہے جو آگے فرمایا کہ تمہارا کھانا پرہیز گار اور نیکوکار کے علاوہ اور کوئی نہ کھائے۔ (ترمذی، ابوداؤد، درامی)

تشریح
ارشاد گرامی کے آخر کے جملہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم اپنی روزی حلال و جائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرو تاکہ وہ نیک پرہیزگار مسلمانوں کے کھانے کے قابل ہو اور یہ مطلب بھی ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم اپنا کھانا دعوت کی صورت میں صرف متقی لوگوں کو کھلاؤ تاکہ اس کھانے کے ذریعہ انہیں عبادت الٰہی اور نیک کام کرنے کی طاقت حاصل ہو غیر متقی اور بدکار لوگوں کو اپنا کھانا نہ کھلاؤ جس سے ان کو گناہ کرنے کی طاقت حاصل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دشمنان دین اور بدکار لوگوں کے ساتھ صحبت و ہم نشینی اور ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے سے اس لئے منع فرمایا کہ تاکہ ان سے الفت و محبت قائم ہونے کے سبب پیدا نہ ہو اور نہ ان کی صحبت و ہم نشینی کی وجہ سے کفر و شرک و بدکاری و برائیوں کے جراثیم سرایت نہ کریں۔علماء نے لکھا ہے کہ صرف متقی و پرہیزگار کو کھانا کھلانے کا حکم کا تعلق محض دعوت طعام اور تقاریب سے ہے ضرورت مندی و احتیارج کی صورت اس سے مستثنی ہے کیونکہ کسی بھوکے کو اور محتاج کو کھانا کھلانے کے لئے کسی قسم کا امتیاز روا نہیں یہ بات اس آیت کریمہ ، (وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّه مِسْكِيْنًا وَّيَ تِ يْمًا وَّاَسِيْرًا) 76۔ الدہر : 8) سے بھی ثابت ہے کیونکہ اس آیت میں دوسرے ضرورت مندوں کے ساتھ جن اسیروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کافر تھے لہذا معلوم ہوا کہ رفع حاجت یعنی بھوک سے بچانے کے لئے کافر کو کھلانا جائز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں