خدا کی رضا و خوشنودی کی خاطر باہمی میل ملاپ اور محبت رکھنے والوں کی فضیلت
راوی:
وعن معاذ بن جبل قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله تعالى وجبت محبتي للمتحابين في والمتجالسين في والمتزاورين في والمتباذلين في . رواه مالك . وفي رواية الترمذي قال يقول الله تعالى المتحابون في جلالي لهم منابر من نور يغبطهم النبيون والشهداء
" حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ میرا محبت کرنا ایک طے شدہ امر ہے جو محض میری رضا مندی و خوشنودی کی خاطر آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں محض میری خوشنودی کی خاطر اور میری حمد و ثناء کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں محض میری رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور محض میری رضا و خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں مالک ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری عظمت و جلال کے سبب آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں ان کے لئے اخرت میں نور کے منبر ہوں گے جن انبیاء و شہداء بھی رشک کریں گے۔
تشریح
" جن پر انبیاء و شہداء رشک کریں گے" اس جملہ پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح درست ہو سکتی ہے کہ انبیاء علی الاطلاق تمام لوگوں سے افضل و برتر ہیں اور شہداء راہ میں اپنی جان و مال قربان کر دینے کے سبب عظیم فضیلت رکھتے ہیں لہذا ان دونوں کا ایسے لوگوں کے اجر انعام پر رشک کرنا کس طرح موزوں ہو سکتا ہے جس کا مذکورہ عمل یعنی اللہ کے لئے آپس میں میل جول محبت رکھنا نہایت آسان اور سہل ہے علاوہ ازین اس بات سے انبیاء اور شہداء کے مقابلہ پر مذکورہ لوگوں کا زیادہ افضل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ رشک اسی کو ہوتا ہے جو مفضول ہو اور جس پر رشک کیا جاتا ہے وہ فاضل ہوتا ہے اس کا جواب علماء نے اجر و انعام پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ہے نہ کہ رشک کا حقیقی مفہوم مراد ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث کا مذکورہ بالا جملہ در اصل فرض و تقدیر پر مبنی ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہا لوگوں کو جو رتبہ و مقام حاصل ہوگا اس کی اہمیت فضیلت کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے اگر بفرض محال انبیاء و شہداء کو کسی رتبہ و مقام پر رشک ہوتا ہے تو ان لوگوں کے رتبہ و مقام پر ہوتا ہے اور تیسرا جواب یہ دیا ہے کہ اس طرح کے مواقع پر عام طور پر دیا جاتا ہے یہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مفضول میں کوئی ایسی خاص صفت و فضیلت ہوتی ہے جو فاضل میں نہیں ہوتی اور باجودیکہ فاضل اپنے اندر جو فضائل اور خوبیاں رکھتا ہے ان کے مقابلہ میں مفضول کی اس صفت و فضیلت کی اہمیت نہیں ہوتی لیکن فاضل کی تمنا و خواہش ہوتی ہے کہ اس کو وہ صفت و خوبی حاصل ہو جائے جو مفضول میں ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جائے کہ زید کے پاس ایک ہزار بہت سے خوبصورت غلام ہیں اور ان میں خوبصورتی کے علاوہ دوسری اور خوبیاں بھی اور اس کے مقابلہ میں بکر کے پاس ایک غلام بچہ ہو جو بہت نیک اور ہو نہار ہو ظاہر ہے کہ زید اپنے غلاموں کی تعداد و اہمیت کے اعتبار سے بکر کے مقابلہ میں کہیں زیادہ برتری فضیلت رکھتا ہے اور اس کو اس بات کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بکر کے غلام بچہ پر رشک کرے لیکن اس کے باوجود اس کی خواہش یہ ہوگی کی کہ بکر کے پاس جو غلام بچہ ہے اسی طرح کا ایک غلام بچہ مجھے بھی حاصل ہو جائے، اسی طرح انبیاء و شہداء بھی مذکورہ لوگوں کی فضیلت دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کاش دوسری فضیلتوں کی طرح یہ فضیلت بھی ان کو حاصل ہو جائے۔