بچے کو عقوق سے بچانے کے لئے اس کا عقیقہ کرو
راوی:
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم عن العقيقة فقال : " لا يحب الله العقوق " كأنه كره الاسم وقال : " من ولد له ولد فأحب أن ينسك عنه فلينسك عن الغلام شاتين وعن الجارية شاة " . رواه أبو داود والنسائي
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا۔گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو لفظ عقیقہ سے موسوم کئے جانے کو ناپسند فرمایا۔ اور پھر فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو اس کو چاہئے، کہ وہ اس لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ۔(ابوداؤد و نسائی)
تشریح
" اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا " کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا لڑکا بڑی عمر میں پہنچ کر والدین کے حق میں عاق نہ ہو یعنی والدین کی نافرمانی کرنے والا نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی چوٹی عمر میں عقیقہ (کا جانور ) ذبح کرے ، کیونکہ والدین کا عقوق ( یعنی والدین کا اپنے بچے کا عقیقہ نہ کر کے گویا ایک طرح کی نافرمانی کرنا ) دراصل لڑکے کے عقوق ( یعنی لڑکے کے نافرمانبردار ہو جانے ) کا باعث ہوتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں پسند نہیں کرتا ۔ اس اعتبار سے حدیث کے الفاظ گویا من ولد لہ ( جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو الخ ) کی تمہید کے طور پر ہیں ۔
" گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو لفظ عقیقہ سے موسوم کئے جانے کو ناپسند فرمایا ۔ " روایت کے یہ الفاظ کسی راوی کے اپنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کو ' ' عقیقہ " کے لفظ سے موسوم کئے جانے کو پسند نہیں فرمایا ۔ تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ یہ " عقیقہ " عقوق سے مشتق ہے ، جس کے معنی والدین سے سر کشی اور ان کی نافرمانی کرنا ہیں ) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند فرمایا کہ اس کو اس سے بہتر نام جیسے ذبیحہ یا نسیکہ سے موسوم کیا جائے ( نہایہ ) لیکن تور پشی نے کہا ہے ۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس بات کی نسبت کہ ( گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " عقیقہ " کہے جانے کو ناپسند فرمایا ) غیر موزوں ہے ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کتنے ہی ارشادات میں " عقیقہ " ہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ لفظ ناپسندیدہ ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر کیوں فرماتے ، لیکن اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا ۔ کہ یہ احتمال ہے کہ سوال کرنے والے نے یہ گمان کیا ہو کہ مادہ اشتقاق میں عقیقہ اور عقوق کا مشترک ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ حکم کے اعتبار سے عقیقہ کی زیادہ اہمیت نہ ہو ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب کے ذریعہ یہ واضح کر دیا کہ امر واقعی اس کے خلاف ہے ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے نہایہ کی مذکورہ بالا وضاحت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ جن احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ کا لفظ ذکر کرنا منقول ہے وہ اس کراہت سے پہلے کی ہوں گی ۔