علماء اور اولیاء اللہ کے ساتھ محبت رکھنے والے آخرت میں ان ہی کے ساتھ ہوں گے۔
راوی:
وعن ابن مسعود قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله كيف تقول في رجل أحب قوما ولم يلحق بهم ؟ فقال المرء مع من أحب . متفق عليه
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو کسی جماعت یعنی علماء و صلحاء اور بزرگان دین سے محبت و عقیدت رکھتا ہو لیکن ان کی محبت اس کو نہ ہوئی ہو یا وہ ان کے علم و عمل تک نہ پہنچا ہو؟ حضور نے فرمایا وہ شخص اسی کے ساتھ ہے جس کو وہ محبوب رکھتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
حضور کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی عالم یا بزرگ کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتا ہے وہ آخرت میں اسی عالم و بزرگ کے ساتھ ہوگا اور اگرچہ کامل محبت کہ جس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے وہی ہے جو اتباع موافقت اور علمی و عملی یگانگت تک پہنچا دے لیکن محض مخلصانہ عقیدت و محبت بھی معیت یکجائی کا ذریعہ بن جاتی ہے اس میں گویا ان لوگوں کے لئے بشارت ہے جو علماء و صلحاء اور بزرگان دین سے عقیدت و محبت اور دوستی رکھتے ہیں کہ وہ لوگ انشاء اللہ قیامت کے دن انہی علماء و صلحاء اور بزرگان دین کے ساتھ اٹھیں گے اور آخرت میں ان کی رفاقت و معیت کی دولت پائیں گے ، ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ حدیث کا ظاہری مفہوم عمومیت پر دلالت کرتا ہے یعنی اس ارشاد گرامی میں عمومی طور پر یہ نکتہ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، اور وہ شخص کہ جس کے ساتھ محبت ہے خواہ نیک ہو یا بدکار فاسق، ملا علی قاری کی اس بات کی تائید اس حدیث المرء علی دین خلیلہ، سے ہوتی ہے جو آگے آئے گی اس صورت میں کہا جائے گا کہ جو لوگ علماء و صلحاء اور بزرگان دین کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے ہیں ان کے لئے اس حدیث میں خاتمہ بخیر اور اخروی فلاح و سعادت کی بشارت ہے اور جو لوگ بدکار فاسق اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے ہیں ان کے لئے اس حدیث میں سخت وعید و تنبیہ ہے۔