باہمی الفت ومحبت ، اتحاد ویکجہتی کا ذریعہ ہے۔
راوی:
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال المؤمن مألف ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف رواهما أحمد والبيهقي في شعب الإيمان
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان، الفت، محبت کا مقام و مخزن ہے اور اس شخص میں بھلائی نہیں ہے جو الفت نہیں کرتا اور نہ اس شخص سے الفت کی جائے یعنی جو شخص ایسا ہو کہ نہ تو وہ مسلمانوں سے الفت و محبت کرتا ہو اور نہ مسلمان اس سے محبت و الفت کرے تو وہ کسی کام کا نہیں، ان دونوں روایتوں کو احمد اور شعب الایمان میں بہیقی نے نقل کیا ہے۔
تشریح
لفظ مالف مصدر میمی ہے اور فاعل و مفعول دونوں کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے گویا کہ یہ لفظ مفہوم کے اعتبار سے یوں یالف و یولف یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ الفت و محبت کرتا ہے اور دوسروے اس سے الفت محبت کرتے ہیں چنانچہ ایک روایت میں اسی طرح منقول ہے کہ اور یہاں بھی اس حدیث کے اخری الفاظ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ لیکن طیبی نے کہا ہے کہ یہ احتمال کہ یہ لفظ مالک مصدر بطریق مبالغہ ہو جیسا کہ کہا جائے رجل عدل اس صورت معنی ہوں گے مومن الفت کرنے والا اور یا کہ مالف اسم مکان ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے اس صورت میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے مسلمان کے ساتھ محبت و موانست اور الفت و شفقت ہی کے ذریعہ اتحاد و یگانگت اور اتفاق و یکجہتی کی دولت حاصل کر سکتے ہیں اور اگر باہمی الفت و محبت کی روح ختم ہو جائے اور تو پھر ان میں تفرقہ پڑ جائے گا اور وہ انتشار کا شکار ہو جائیں گے۔چنانچہ اللہ نے اس آیت کریمہ ( اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَا ءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھ اِخْوَانًا) 3۔ ال عمران : 103)۔ کے ذریعہ باہمی الفت و موانست کو مسلمانوں کے حق میں ایک زبردست نعمت قرار دیا ہے اور قرآن میں اس مضمون کو کئی جگہ پر بیان کیا گیا ہے۔