اپنی بد زبانی کے ذریعہ ہمسایوں کو ایذاء پہنچانے والی عورت کے بارے میں وعید
راوی:
وعن أبي هريرة قال قال رجل يا رسول الله إن فلانة تذكر من كثرة صلاتها وصيامها وصدقتها غير أنها تؤذي جيرانها بلسانها . قال هي في النار . قال يا رسول الله فإن فلانة تذكر قلة صيامها وصدقتها وصلاتها وإنها تصدق بالأثوار من الإقط ولا تؤذي جيرانها . قال هي في الجنة . رواه أحمد والبيهقي في شعب الإيمان
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ فلاں عورت کا زیادہ نماز، روزے اور کثرت صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے یعنی لوگ کہتے ہیں کہ وہ عورت بہت زیادہ عبادت کرتی ہے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرتی رہتی ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائے گی۔ یعنی وہ عورت چونکہ اپنی زبان اور گالم گلوچ کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے اس لئے وہ شوزخ میں ڈالی جائے گی اور باوجودیکہ نماز روزہ اور صدقہ و خیرات افضل ترین عبادات میں سے ہیں لیکن اس کی یہ عبادتیں بھی اس کے گناہ کا کفارہ نہیں ہوں گی اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے بہت کم صدقہ دیتی ہے اور بہت کم نماز پڑھتی ہے اور حقیقت میں اس کا صدقہ و خیرات قروط کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عورت جنت جائے گی۔ (احمد وبہیقی)
تشریح
ا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اصل میں دین کا مدار جس چیز پر ہے وہ اکتساب فرائض اور اجتناب معاصی ہے یعنی انسان کی اخروی فلاح نجات محض اس بات پر منحصر ہے کہ وہ دینی فرائض و واجبات پر عمل کرے اور گناہ و معصیت سے پرہیز کرے اور گناہ و معصیت خواہ ترک فرائض و واجبات کی صورت میں ہوں یا بد عملیوں کی شکل میں اس بات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں کہ فضول یعنی نفلی عبادات و طاعات کو اختیار کیا جائے اور اصول یعنی واجبات کو ضائع کیا جائے جیسا کہ اکثر علماء اور صلحاء اس کمزوروی میں مبتلا ہیں چنانچہ علماء تو ان چیزوں کو ترک کرتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے اور صلحاء اس علم کو حاصل نہیں کرتے جس کو حاصل کرنا واجب ہے گویا دونوں طبقے ترک واجب کی معصیت کے مرتکب ہیں البتہ وہ مشائخ اور صوفیاء جو علم و عمل دونوں کے حامل ہوتے ہیں وہ واجبات پر عمل کرنے کو جو درجہ دیتے ہیں وہی ترک واجب کی معصیت سے اجتناب کو بھی دیتے ہیں بلکہ ایک طرح سے ان کے نزدیک اجتناب کی اہمیت مقدم ہے اور وہ حکمائے طب کے اصول کو اختیار کرتے ہیں کہ تحلیہ پر تخلیہ مقدم ہے لہذا جس طرح اطباء مریض کو پرہیز پہلے کراتے ہیں اور دواء بعد میں دیتے ہیں اس طرح وہ مشائخ و صوفیا بھی سالکیں طریقیت کے لئے پہلی منزل توبہ قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی ہے کہ جس طرح مریض مضر چیزوں سے پرہیز نہ کرے تو لاکھ دوائیں بھی اس کے لئے بے فائدہ ہیں اسی طرح کوئی مسلمان گناہ معصیت سے اجتناب نہ کرے اور ترک واجبات سے دامن نہ بچائے تو لاکھ عبادات کرے اور نوافل و ادوار میں مشغول ہو اس کو خاص فائدہ نہیں ہوگا چنانچہ کلمہ تو حید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پہلے نفی ہے پھر اثبات اور یہ کہ صفات ثبوتیہ پر صفات سلبیہ مقدم ہیں کیونکہ صفات ثبوتیہ کا حصول تو لازم آتا ہے لیکن ثبوتیہ سے صفات سے سلبیہ کا حصول لازم نہیں آتا۔