لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنے کا مسئلہ
راوی:
وعن محمد بن علي بن حسين عن علي بن أبي طالب قال : عق رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الحسن بشاة وقال : " يا فاطمة احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضة " فوزناه فكان وزنه درهما أو بعض درهم . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب وإسناده ليس بمتصل لأن محمد بن علي بن حسين لم يدرك علي بن أبي طالب
" حضرت محمد بن علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( یعنی حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنے نواسے اور میرے بچے ) حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی تھی اور فرمایا کہ " فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! اس ( حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا سر مونڈو اور اس کے بال کے ہم وزن چاندی صدقہ کر دو ۔ " چنانچہ ہم نے ان بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم یا ایک درہم سے کم وزن کے تھے ۔ " ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اور اس کی اسناد متصل یعنی مسلسل نہیں ہے ۔ کیونکہ محمد بن علی بن حسین نے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا زمانہ نہیں پایا ہے ۔ "
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری یا بکرا بھی ذبح کیا جا سکتا ہے ، نیز ابوداؤد نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے عقیقہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا ، یہ حدیث آگے آ رہی ہے ۔ لیکن نسائی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دو دو مینڈھے روایت کئے ہیں اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مطلق نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے عقیقہ کیا ۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ اگرچہ ایک بکری کی روایت بھی صحیح ہے ۔ لیکن زیادہ مضبوط اور زیادہ صحیح وہی روایت ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں ذبح کی جائیں ، کیونکہ اس روایت کو صحابہ کی ایک پوری جماعت نے نقل کیا ہے نیز لڑکے کے عقیقہ میں دو بکری کو ذبح کرنے کو ترجیح دینے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ایک بکری ذبح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے ۔ اور دو بکریاں ذبح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز قول سے ثابت ہو وہ فعل سے کہیں زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ مکمل سمجھی جاتی ہے ، کیوں کہ فعل کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص حالت سے متعلق ہو ، جب کہ قول میں عمومیت واکملیت ہوتی ہے ، اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فعل تو محض جواز پر دلالت کرتا ہے اور قول سے جواز کے ساتھ استحباب بھی ثابت ہوتا ہے، ترمذی نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جن صحابہ کی روایتیں منقول ہیں ، وہ یہ ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کرز رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ۔
اور ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے ، احتمال ہے کہ لڑکے کے حق میں استحباب کا کم سے کم درجہ ایک بکری ہو اور کمال استحباب دو بکری ہو جس حدیث میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ حدیث کم سے کم درجہ پا اکتفا کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لئے ہو یا یہ کہ یہ حدیث دراصل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لازم اور ضروری نہیں ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں جو دو بکری یا جو دو منڈھے ذبح کئے جاتے ہیں ، وہ دونوں ساتویں ہی دن ذبح ہوں ، لہٰذا ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک بکری یا ایک ایک مینڈھا تو ان کی پیدائش کے دن ہی ذبح کر دیا ہو اور دوسری بکری یا دوسرے منڈھے کو ساتویں دن ذبح کیا ہو اس تاویل و توضیح کی صورت میں تمام روایتوں کے درمیان مطابقت و یکسانیت پیدا ہو جائے گی اور کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا ، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مینڈھا یا ایک بکری کے ذریعہ عقیقہ کیا اور اس کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حکم فرمایا کہ دوسرا مینڈھا یا دوسری بکری وہ ذبح کر دیں ، لہٰذا جس روایت میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس میں تو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ نسبت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری یا ایک منڈھے کے ذریعہ عقیقہ کیا حقیقت کے اعتبار سے ہے ۔ اور جس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دو بکری یا دو دنبے کو ذبح کرنے کی نسبت کی گئی ہے وہ مجاز ہے ۔
" اس کا سر مونڈو " ۔ یہ حکم یا تو حقیقۃ تھا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم اپنے ہاتھ سے اس کا سر مونڈو ، یا یہ مطلب تھا کہ کسی دوسرے شخص کو حکم دو کہ اس کا سر مونڈ دے ۔ یہ امر ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سر مونڈنے کا حکم دیا جاتا ، استحباب کے طور پر ہے ۔ اسی طرح بالوں کو وزن کرنے کا حکم بھی بطریق استحباب کے ہے ۔