مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان ۔ حدیث 919

زبان خلق کو نقارہ اللہ سمجھو

راوی:

وعن ابن مسعود قال قال رجل للنبي الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله كيف لي أن أعلم إذا أحسنت أو إذا أسأت ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت . وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأت . رواه ابن ماجه

" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی نیکو کاری یا بدکاری کو کس طرح معلوم کر سکتا ہوں یعنی اگر میں کوئی ایسا کام کروں جس کی شرعا اچھائی برائی معلوم نہ ہو تو ایسا کون سا ذریعہ ہے جس سے میں یہ معلوم کر سکوں کہ وہ کام کر کے میں نیکو کار بنوں گا یا بدکار؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو تمہارا کام اچھا ہے اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کام کیا ہے تو وہ تمہارا کام برا ہے یعنی تمہارا نیکوکار یا بدکار ہونا تمہارے پڑوسیوں کی گواہی کی ذریعہ معلوم ہوگا۔ (ابن ماجہ)

تشریح
جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو " میں پڑوسیوں سے سارے پڑوسی مراد ہیں کیونکہ دو چار پڑوسی تو کسی غلط بات پر اتفاق کر سکتے ہیں لیکن عام طور پر سارے پڑوسیوں کا کسی ناروا فیصلے پر اور غلط بات پر متفق ہونا ممکن نہیں ہے لیکن حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے صراحت بھی کی ہے کہ حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس کے پڑوسی اہل حق، صاحب انصاف اور کسی کام کی اچھائی کو سمجھنے والے ہوں نیز وہ اس شخص سے نہ بہت زیادہ محبت تعلق رکھتے ہوں اور نہ بہت زیادہ دشمنی عداوت۔ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عارفانہ قول کی تائید کرتی ہے کہ السنۃ الخلق اقلام الحلق۔ یعنی مخلوق اللہ کی زبان حق تعالیٰ کا قلم ہے یا اس مفہوم کو ہمارے یہاں اس محاورہ ، زبان خلق نقارہ خدا، کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
برا کہے جسے عالم اسے برا سمجھو زبان خلق کو نقارہ اللہ سمجھو

یہ حدیث شیئر کریں